عمران خان اور ایڈولف ہٹلر


ماشاء اللہ عمران خان کا تصور ذات بہت ہی بڑا ہے، وہ خود کو دنیا کا سب سے عظیم انسان سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے تصور ذات کو علم نفسیات میں Grandiose Delusion کے ذیل میں کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مگر عمران خان کے خاص معاملے میں یہ خبط محض ان کا ذاتی خبط نہیں بلکہ ان کے حوارین بھی ان کے اس خبط پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے رہے ہیں کہ ”شہنشاہ معظم کی یہ ادا تو بالکل سکندر اعظم کی سی تھی“، ”جناب عالی ابھی تو بالکل نیلسن مینڈیلا معلوم ہوئے۔ “

خود سے محبت، نرگسیت، خود پرستی اور تکبر جیسے الفاظ عمران خان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی کا درجہ رکھتے ہیں مگر کیا یہ مسئلہ صرف عمران کان کا ہے؟

نہیں ہر گز نہیں۔ بڑی حد تک ہمارے ملک میں ہر وہ شخص جو تھوڑا سا بھی کچھ غیر معمولی کر لیتا ہے وہ تقریباً پاگل ہوا ہی لگتا ہے، عمران خان تو چلیے پھر بھی ایک کامیاب کھلاڑی تھے اور اداروں کی مہربانی سے ملک کے وزیر اعظم بھی بن گئے۔ ہمارے ملک میں تو الحمدللہ اسکول کے پرنسپل اور کالج کے لیکچرار بھی تقریباً خود کو خدا ہی سمجھتے ہیں۔ عمران خان ہمارے اس اجتماعی قومی مزاج کی ہی ایک بڑھی ہوئی اور مریضانہ شکل ہیں مگر سوال یہ بھی ہے کہ ہم اس مضمون میں عمران خان صاحب پر آخری تبریٰ کیوں بھیج رہے ہیں؟ عمران خان صاحب نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ یوٹرن لینا کوئی بری بات نہیں اور اگر ہٹلر اور نپولین یوٹرن لینا جانتے تو انہیں شکست نہ ہوتی۔

محترم کے اس ارشاد پر تب تھوڑا واویلا تو ہوا تھا مگر بس پھر بات آئی گئی ہو گئی مگر بات یہ ہے کہ اس بیان کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔

ہمارے وطن کی اکثریت تو ہٹلر اور نپولین کو جانتی ہی نہیں، جو تھوڑا بہت تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ بھی ہٹلر یا نپولین کو بہت سرسری طور پر ہی جانتے ہیں۔ خود عمران خان صاحب کے بارے میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ وہ ہٹلر اور نپولین کے بابت فلمیں دیکھ چکے ہوں گے۔ اس سے برتر کسی صورت ان کی ان اشخاص سے شناسائی بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ بہرحال عمران خان اور ان کے حامیوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ ہٹلر اور نپولین اس لئے تباہ نہیں ہوئے کہ وہ دونوں یوٹرن لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، ان کی تباہی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے غلط ملک سے ٹکر لے لی۔

دونوں کی غلطی ایک ہی تھی کہ انہوں نے یورپ کے اکثر حصے کو فتح کرنے کے بعد روس کو بھی ختم کرنے کی سعی کی، دونوں ہی کو روس میں ابتداء میں کافی فتوحات حاصل ہوئیں۔ نپولین اور ہٹلر دونوں نے ہی روس کا اکثر یورپی حصہ فتح کر لیا تھا مگر روس کی بے پناہ وسعت اور سردی کے موسم نے دونوں کو وہاں سے پسپائی پر مجبور کیا۔

نپولین اور ہٹلر میں کم و بیش سو سال کا زمانی فاصلہ موجود ہے لیکن دونوں ہی کے بہت سے معاملات مشابہ ہیں، جیسا کہ دونوں ہی متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، عوامی قوت سے اقتدار میں آئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد مطلق العنان بن گئے۔ (نپولین کے عہد میں تو خیر بادشاہت کے علاوہ کوئی ماڈل معروف بھی نہ تھا) دونوں نے ہی یورپ کے اکثر ممالک کو زیر کیا، دونوں ہی کو روس کی وسیع زمین نے للچایا اور دونوں ہی اس پر چڑھ دوڑے۔ دونوں ہی ابتداء میں روس میں کامیاب ہوئے، پھر سردی اور روسی فوج کے ہاتھوں پٹ کر نکلے اور باقی یورپ کیا اپنا ملک بھی ہاتھوں سے گیا۔

ہٹلر اور نپولین جب روس پر چڑھ دوڑے تھے اس کے بعد وہ یوٹرن کیسے لے سکتے تھے؟ شروع میں تو وہ فتح یاب ہو رہے تھے اور جب مار پڑنی شروع ہوئی تو کیا نپولین کو چاہیے تھا کہ وہ روس کے بادشاہ زار الیگزینڈر کو پیغام بھیجتا کہ ”دوست معذرت قبول کرو، غلطی ہو گئی“ اور آرام سے روس سے چلتا بنتا؟ یا ہٹلر اسی نوع کا تار اسٹالن کو بھیجتا؟ اور کیا الیگزینڈر یا اسٹالن ان پیغامات کو تسلیم کر لیتے اور جنگ کو آگے نہ بڑھاتے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جب روسی افواج کے ہاتھوں پٹ کر فرانسیسی یا جرمن افواج واپس لوٹ رہی تھیں تو وہی دراصل یوٹرن کی مثال ہے۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ ہٹلر اور نپولین نے تو تاریخ میں عملاً یوٹرن لیا ہے مگر ان کا یوٹرن ان کو شکست سے بچا نہ سکا۔

جنگوں کی تواریخ اس بات کی شاہد ہیں کہ سخت مزاحمت بہت مرتبہ حملہ آوروں کو واپس پلٹنے پر مجبور کرتی ہے، اس کی ایک مثال حالیہ تاریخ میں میں ایران عراق جنگ ہے کہ جس میں ایرانیوں کی سخت مزاحمت نے عراق کو کرم شہر سے ہی واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ پھر ایران نے عراق پر حملہ کیا مگر عراق نے اپنا دفاع کر لیا اور پھر جنگ بندی ہوئی۔ نپولین اور ہٹلر کا معاملہ صدام سے اس لئے مختلف ہوا کہ تب نپولین اور ہٹلر نے بیک وقت کئی محاذ کھولے ہوئے تھے جب کہ صدام نے تب محض ایک ہی محاذ کھولا تھا۔ یعنی تاریخ ہم کو یہ بتاتی ہے کہ میدان جنگ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن لئے اور ان کی شکست پر اس سے کوئی روک نہ لگا۔ ان دونوں نے بیک وقت کئی محاذ کھولے اور اسی لئے آخر میں ناکام ہوئے۔

اوپر کی گئی گفتگو سے باآسانی قاری عمران خان صاحب کے پسماندہ فہم تاریخ کا اندازہ لگا سکتا ہے، ویسے تو یہ طے ہے کہ اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بھی ایڈولف ہٹلر اور نپولین کا موازنہ بھی عمران خان سے ویسا ہے کہ جیسے ماؤنٹ ایورسٹ اور ”کے ٹو“ کا موازنہ کسی صحرائی ٹیلے سے کیا جائے۔ نپولین اور ہٹلر کی زندگی کی سب سے چھوٹی غلطی بھی عمران خان کی زندگی کے سب سے بڑے کارنامے سے بہت عظیم ہے، مگر یہ طے ہے کہ عمران خان صاحب اپنے دعویٰ عظمت کے باوجود نپولین اور ہٹلر ہی کی طرح بڑے دعوے کر کے حملہ کرنے والے اور آخر میں یوٹرن لینے والے ہیں۔ وہ بھی نپولین اور ہٹلر کی ہی طرح ایک وقت میں کئی محاذ کھولنے والے ہیں۔

عمران خان صاحب کو اگر نپولین اور ہٹلر سے کچھ عبرت حاصل کرنی ہے تو یہ سیکھیں کہ جب 75 قسم کے وبال ویسے ہی پھیلے ہوں تو ایسے میں کسی دیوزاد سے جھگڑا نہیں مول لینا چاہیے۔ ہٹلر اور نپولین کے پاس بہرحال عظیم عوامی طاقت آخری دم تک تھی جب کہ خان صاحب کے پاس اغوا کیے ہوئے انتخابات کا جعلی میڈیٹ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کس نے حکومت دی ہے اور کتنی انجینئرنگ کرکے دی ہے، وہ پاکستان کے دوسرے جونیجو ہیں، اتنی کمزور تو شوکت عزیز بلکہ جمالی کی حکومت بھی نہ تھی مگر خان صاحب کا زعم ہے کہ فرعون کی طرح بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

مراد سعید جیسے مالشیے اس زعم میں اپنے چکنے چپڑے جملوں سے اور بڑھاتے ہی جاتے ہیں اور اترا کر عمران خان صاحب اعلان فرماتے ہیں کہ وہ ”نپولین یا ہٹلر نہیں کہ۔ ۔ ۔ “ نہیں سر بالکل نہیں۔ آپ نپولین یا ہٹلر ہرگز نہیں مگر آپ کو اس کا شعور نہیں۔ خبط کے اگلے مراحل میں ہوتا یہی ہے کہ آدمی کا شعوری تعلق حقیقت سے صریحاً منقطع ہو ہی جاتا ہے، اس میں کون سی انہونی بات ہے؟ اس میں کون سی نئی بات ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).