گاؤں اور بچپن کی کچھ یادیں


 

 پنجاب میں جدید طرز کے گاؤں ہیں جنھیں چک کہا جاتا ہے اور اس کی جمع چکوک بنائی جاتی ہے۔ یہ گاؤں ایک باقاعدہ نقشے کے تحت بنے ہوئے ہیں، کھلی اور کشادہ گلیوں اور راستوں کے ساتھ۔ انگریزوں کے زمانے میں جب دریاؤں سے نہریں نکال کر بار کے علاقوں کی زمینوں کو آباد کیا گیا تواس وقت یہ چک بسائے گئے تھے اس لیے ان میں پرانی تہذیبی اور ثقافتی روایات کی کوئی گہری جڑیں نہیں تھیں۔ آبادکاری کے وقت ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں اور سکھوں میں تفریق قائم کی گئی۔ ہمارے علاقے میں نہر کے بائیں کنارے پر مسلمانوں کو زمینیں الاٹ کی گئیں تو دائیں کنارے پر سکھوں کو آباد کیا گیا۔ جب تقسیم ہند کے بعد سکھ اپنے دیہات خالی کرکے مشرقی پنجاب چلے گئے تو ان دیہات میں مشرقی پنجاب سے آنے والے مسلمان مہاجروں کو زمینیں الاٹ کی گئیں۔

میرا گاؤں انھی مہاجروں پر مشتمل تھا۔ گاؤں میں زیادہ آبادی جالندھر، امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع سے آنے والے لوگوں کی تھی۔ ان کے پنجابی کے لہجے مختلف تھے جو بچپن میں بہت عجیب لگتے تھے اور بعض اوقات بات سمجھنے میں دشواری پیدا کرتے تھے۔ کسی قسم کا ذات برادری کا اختلاف نہیں تھا۔ سارا گاؤں ایک ہی برادری، ارائیں برادری، پر مشتمل تھا، جاٹوں کے چار پانچ گھر تھے۔ اس لیے اکثر معاملات میں کافی یک جہتی تھی۔

کوئی مذہبی اختلاف بھی نہیں تھا۔ تقریباً سارا گاؤں ہی سنی بریلوی مسلک پر عامل تھا۔ اگرچہ بریلوی مسلک پر عمل کرنے کے باوجود پیروں کو کوئی زیادہ لفٹ نہیں کرائی جاتی تھی۔  جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صرف ایک بار کوئی پیر صاحب گاؤں میں اپنے مریدوں کو دیدار کرانے تشریف لائے تھے لیکن ان کا قیام بھی ایک دو راتوں سے زیادہ نہیں تھا۔

  گاؤں میں دو مسجدیں تھیں۔ ایک مسجد ہمارے گھر کے تقریباً سامنے تھی جو چھوٹی مسجد کہلاتی تھی۔ دوسری مسجد گاؤں کی دوسری طرف تھی جو بڑی مسجد کہلاتی تھی اور جمعہ وہیں ہوتا تھا۔ چھوٹی مسجد کے امام صاحب تقریباً ناخواندہ تھے، بس اردو کسی حد تک پڑھ لیتے تھے۔ بڑی مسجد کے امام کسی قدر بہتر تھے لیکن کسی مدرسے کے سند یافتہ وہ بھی نہیں تھے۔ ان میں بڑی خوبی یہ تھی کہ عام طور پر کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں کیا کرتے تھے۔

 

مہاجروں کے پاس زمین کی ملکیت تھوڑی تھوڑی تھی۔ گاؤں میں سالم مربع کسی کے پاس نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگوں کی ملکیت پانچ سات ایکڑ پر مشتمل تھی۔ ایک ایک رہائشی احاطے میں بھی کئی کئی خاندان آباد تھے۔ یہ چکوک زیادہ تر نئی آبادیاں تھیں، اس لیے ان میں کوئی گہری ثقافتی روایات موجود نہیں تھیں۔ نہ کوئی چوپالیں سجتی تھیں، نہ ہیر گانے والے تھے۔ پورے گاؤں میں ایک بھی شخص نہیں تھا جو کسی قدر سر میں گا سکے یا کوئی ساز بجانے میں مہارت رکھتا ہو۔ بس کسی شادی بیاہ کے موقع پر لاوڈ سپیکر والا بلایا جاتا تھا جو گراموفون پر ریکارڈ بجایا کرتا تھا۔ اس زمانے میں عالم لوہار کی گائی ہوئی نعت بہت مقبول ہوا کرتی تھی، سانوں روک نہ توں پہرے دارا، تے روزے دی جالی چم لین دے۔ یا انڈیا کی پنجابی فلم بھنگڑا کے گیت بہت شوق سے سنے جاتے تھے، بتی بال کے بنیرے اتے رکھنی آں، گلی بھل نا جائے ماہی میرا۔

 جب میں سکول جانے کی عمر پہنچا تو اس وقت تک لوگ بٹوارے کے نتیجے میں ہونے والے فسادات اور ہجرت کے دوران میں اٹھائی جانے والی تکلیفوں کے صدمے سے نکل آئے تھے۔ زندگی دوبارا امن و آشتی کے روپ میں آ چکی تھی۔ خوش حالی تو شاید ابھی نہیں تھی لیکن غربت بھی نہیں تھی۔ گاؤں میں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جو رات کو بھوکا سوتا ہو۔

 

اس دور کی زندگی بڑی سادہ تھی اور بعض اعتبارات سے بہت قدیم زمانے سے تعلق رکھتی تھی۔ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے آلات ابھی تک وہی تھے جو شاید ہڑپہ کے زمانے سے چلے آ رہے تھے۔ بیل گاڑی کا پہیہ بھی لکڑی کا ہوتا تھا۔ کنوئیں سے پانی نکالنے والی چرخی بھی لکڑی کی تھی۔ جدید زندگی کی صرف دو ایجادات، سلائی مشین اور بائسکل، ابھی زندگی کا حصہ بنی تھیں۔ ریڈیو بھی تقریباً ناپید تھا۔ ہینڈ پمپ، جسے نلکا کہا جاتا تھا، بھی دو تین گھروں میں تھا۔ اس کا ایک سبب شاید یہ بھی تھا کہ زیر زمین پانی کھارا تھا۔ پینے کا پانی زیادہ تر راجباہ سے بھر کر لایا جاتا تھا۔

 گاؤں میں پرائمری سکول تھا جس کا رقبہ کافی وسیع تھا اورساتھ ایک بڑا گراونڈ بھی تھا، جسے رڑی کہا جاتا تھا، لیکن عمارت بس ایک کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھی۔ ایک چھوٹا کمرہ بھی تھا جسے کوٹھڑی کہا جاتا تھا۔ پانچویں جماعت کمرے میں اور چوتھی جماعت برآمدے میں بیٹھتی تھی۔ باقی تین جماعتیں درختوں کے نیچے بیٹھا کرتی تھیں۔ ابتدا میں تو سکول میں ٹاٹ بھی نہیں ہوا کرتے تھے، بلکہ بوری گھر سے لے کر جاتے تھے۔ سکول کے اساتذہ میں شاید کوئی بھی استاد میٹرک پاس نہیں تھا۔ لیکن ان اساتذہ کی یہ اچھی بات تھی کہ وقت پر سکول آتے تھے اور سارا وقت پڑھاتے تھے۔ اس وقت کام چوری کی عادت نہیں تھی۔

 

 ایک بات جو یاد آ رہی ہے اس کا تعلق چوتھی جماعت سے ہے۔ چوتھی جماعت کے استاد ہمارے عزیز تھے لیکن ان سے ڈر بہت آتا تھا۔ سردیوں کے دنوں میں بادل آنے اور دھوپ نہ نکلنے سے سردی بہت بڑھ جاتی تھی۔ چنانچہ ہماری جماعت برآمدے سے کوٹھڑی میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اس میں لڑکے اس بری طرح پھنس کر بیٹھتے تھے کہ پڑھائی ناممکن ہو جاتی تھی۔ اس دن استاد صاحب کہانیاں سنا کر وقت گزارتے تھے۔ حساب میں فیثاغورث کا مسئلہ بہت مشکل دکھائی دیتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ تھے۔ جب اس مسئلے کی باری ہوتی تو میں رات کو بڑے خشوع و خضوع سے دعا مانگتا تھا کہ صبح بادل آ جائیں تاکہ پڑھائی کی نوبت ہی نہ آئے۔ حیرت انگیز طور پر میری یہ دعا اکثر قبول ہو جاتی تھی۔

 اس زمانے میں گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ اس کے باوجود سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں صرف ایک مہینہ، اگست کے مہینے میں، ہوا کرتی تھیں۔ تیسری جماعت میں جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ماسٹر جی نے کہا آج سے ایک مہینے کی چھٹیاں ہو رہی ہیں اور تم لوگوں نے چھٹیوں میں کوئی کام تو کرنا نہیں بس کتے خصی کرنے ہیں۔ ہائی سکول میں جانے کا اس وجہ سے بہت شدت سے انتظآر تھا کہ وہاں دو مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔

 

تیسری یا شاید چوتھی جماعت میں تھا جب یہ افواہ پھیل گئی کہ فلاں تاریخ کو قیامت آنی ہے۔ اس رات زیادہ تر گھروں کی عورتیں چھتوں پر چڑھ کر قرآن خوانی کر رہی تھی، کچھ بآواز بلند درود شریف پڑھ رہی تھیں۔ رات تو آرام سے گزر گئی۔ اگلے دن جب ہم سکول میں پڑھائی کر رہے تھے تو ایر فورس کے جہاز بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے گزرے، حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ان جہازوں کی گڑگڑاہٹ سن کر سکول میں بچوں نے شور مچانا شروع کر دیا قیامت آ گئی، قیامت آ گئی۔

 بچپن میں مجھے ایک الجھن کا سامنا کرنا  پڑتا تھا۔ ہم جماعت اکثر پوچھتے تھے کیا تم وہابی ہو۔ میں نے یہ لفظ کبھی نہیں سنا تھا، نہ پتہ تھا کہ وہابی کون ہوتے ہیں اس لیے میرا جواب ہوتا تھا نہیں۔ اس پر سوال کیا جاتا کہ تمھارا پیر کون ہے؟ اب سچی بات ہے کہ دادا جان کے وقت سے خاندان ان بکھیڑوں سے نجات پا چکا تھا۔ اس کا جواب نفی میں پا کر یہ سننے کو ملتا کہ جس کا کوئی پیر نہ ہو ، اس کا پیر شیطان ہوتا ہے۔ کسی پیر سے بیعت نہ ہونا، گویا وہابی ہونے کی علامت شمار کیا جاتا تھا۔

 

۔ہمارے ساتھ والا گاؤں آدھا بریلوی اور باقی آدھا وہابی تھا اس لیے وہ آپس میں کبھی کبھار ڈانگ سوٹا بھی ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ میرے ابا جان شہر سے واپس آ رہے تھے تووہ اس گاؤں میں عصر کی نماز پڑھنے کے لیے وہابیوں کی مسجد میں چلے گئے۔ نماز پڑھ کر سلام پھیرا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بچی مولوی صاحب کے پاس دودھ کا گلاس اور آٹے کا پیڑا دم کرانے کے لیے لے کر آئی۔ ہمارے دیہات میں یہ عام رواج ہے کہ اگر بھینس دودھ نہ دے رہی ہو تو مولوی صاحب سے آٹے کے پیڑے پر دم کرا کر بھینس کو کھلاتے ہیں اور مولوی صاحب کو دودھ کا ایک گلاس پیش کیا جاتا ہے۔ وہابی مولوی صاحب نے پیڑے پر دم کیا اور دودھ کا گلاس غٹا غٹ پی لیا۔ جب وہ بچی چلی گئی تو ابا جان نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ مولوی صاحب نے پوری نخوت سے جواب دیا کہ ہم قرآن کی آیت پڑھ کر پھونک مارتے ہیں۔ اس پر ابا جان نے کہا کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ وہ ساتھ والی مسجد والے گرنتھ صاحب کا اشلوک پڑھ کر پھونک مارتے ہیں۔

 کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کی ایک افتاد طبع ہوتی ہے۔ میں اگرچہ اس بات کا زیادہ قائل تو نہیں لیکن شاید اس میں کچھ حقیقت ہے۔ گرمیوں کی جلتی بلتی دوپہروں میں سکول کے سامنے گراونڈ میں اکثر باد بگولے بنا کرتے تھے جسے واورولا کہا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں جن ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں اکثر اس کے اندر گھس جایا کرتا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ جن ہیں یا نہیں۔ جن سے تو کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن سارا بدن مٹی سے بھر جاتا تھا جس پر گھر میں امی جان سے بہت ڈانٹ پڑتی تھی۔

 اسی افتاد طبع کا ایک اور شاخسانہ یاد آتا ہے۔ جب ہمیں ہچکی لگتی تو دادی جان کہا کرتی تھیں سانس روک کر سات بار پہلا کلمہ پڑھو۔ ہم ایسا کرتے تھے اور ہچکی رک جاتی تھی۔ جب میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پہنچا تو ایک دن مجھے خیال آیا اگر صرف سانس روکا جائے اور کلمہ نہ پڑھا جائے تو کیا ہو گا۔ چنانچہ ہچکی لگنے پر میں نے ایسا ہی کیا اور ہچکی بند ہو گئی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ کلمہ پڑھنے کا تعلق ہچکی روکنے سے نہیں، بلکہ سانس روکنے کی خاطر توجہ میں ارتکاز پیدا کرنا ہے۔ اب یہی کہہ سکتا ہوں کہ شاید مرا مزاج لڑکپن سے عاقلانہ تھا۔

  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).