منیر نیازی: خواب میری پناہ ہیں


بس میرا چلتا نہیں جب سختی ایام پر

فتح پا سکتا نہیں جب یورشِ آلام پر

اپنے ان کے درمیاں دیوار چن لیتا ہوں میں

اس جہانِ ظلم پر اک خواب بُن لیتا ہوں میں

منیرنیازی کی شاعری مجھے اچھی لگتی ہے۔یہ شاعری ایسی نہیں ہے جسے آپ پڑھتے چلے جائیں اور یہ آپ کو روکنے کی سکت نہ رکھتی ہو۔ اس کی تاثیرمیں اکیلے کردینے والا عجیب بھید چھپا ہے۔ اس راز کو منیرنیازی نے ہرایک پرنہیں کھولا ۔ کچھ رازدارہیں جن پر یہ راز کھلا ہے۔ اور اس نے ان کو اتنا سیراب کردیاہے کہ وہ چپ چپ رہتے ہیں اور اپنی اپنی تنہائیوں کا زہر پیتے ہیں۔

منیر نرالا شاعر ہے۔ شعرمیں بھی عجب اور شخصیت میں بھی منفرد ۔ ہروقت دھیان کی چادراوڑھے۔ ساکت، جامد۔ خیال آتاہے کہ رنگوں اور روشنیوں کی کی دنیامیں ایک انسان اتنا اکیلا۔ اتنا اداس۔ ساکت، جامد، چپ ، گھبرایا ہوا، جذبے کی آگ میں دھکتاہوا ۔ جی ایسا ہوتا ہے۔ بھیڑمیں شامل ہوکر ہجوم کامشاہدہ مشکل ہوتاہے ۔ دنیا کس کو کس آن ملی یہ بھی الگ کہانی ہے ۔ آخر ’’ساکت تصویروں کا باطن‘‘ جاننے کے لیے کم ریاضت درکار نہیں ہوتی۔

اک موسم میں سارے، شجر بنجر بنجر سے لگتے ہیں

پھر بھی اندر ہرا ہے ان کا یوں اوپر سے لگتے ہیں

جیسے اچانک کبھی کھنڈر آباد نگر سے لگتے ہیں

دل ہیبت سے بھرے ہوئے اور چہرے انا کے خالی ہیں

جو کچھ ہے باطن میں ہے اور ظاہر جن کے خالی ہیں

آنکھ جمی ہے ان چہروں پر سارے عہد کے لوگوں کی

جیسے انھی کے پاس دوا ہے ان کے سارے روگوں کی

ہر شے خوف کے زیر اثر زندگی کررہی ہے۔ ایک ڈرا دینے والا تضاد ہر مظہر کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آبادی کے ساتھ ویرانی کاڈیرا ہے۔ یہ آبادیاں اور ویرانیاں تعقل کے تجربی بیانیوں کی گرفت میں نہیں آسکتیں۔ ایک شاعر کا دل ان تضادات کو سمجھ سکتاہے۔

منیرکی شاعری وجود کی آواز ہے۔ اور وجود کے ساتھ خوف ہمیشہ جڑا رہتا ہے۔ یہ تھوڑا خوف نہیں کہ انسان نے اس دنیا سے چلے جانا ہے ۔ کسی اور دنیا میں جس کے اور چھورکا اسے اندازہ نہیں ۔ وہ کتنے وہموں کے ساتھ جیتا ہے ۔ یہی خوف اور وہم منیر کی شاعری میں طاقت بن کر نمودار ہوئے ہیں۔

’’خوبصورت زندگی کو ہم نے کیسے گزارا ‘‘

آج کا دن کیسے گزرے گا کل گزرے کا کیسے

کل جو پریشانی میں بیتا وہ بھولے گا کیسے

کتنے دن ہم اور جئیں گے کام ہیں کتنے باقی

خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات گنوا دی

چھوٹے چھوٹے وہموں ہی میں ساری عمر بتا دی

ہم میں سے ہرکوئی اس نظم کی روشنی میں اپنا آپ دیکھ سکتاہے۔ اندیشے وسوسے ، آج اور کل کی دبدھا۔ یہ ہماری زندگیاں ہی تو ہیں جنھیں منیر نظم کرتا ہے۔ اس شاعری کی شاعری میں مستعار نظریات کی گردان نہیں ہے۔ نہ ہی کسی فیشن کے زیر اثر یہ شعر کہتا ہے منیر اپنے داخل کی آواز پر شعر کہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریات کے متلاشی ناقدین کے لیے اس شاعری میں کوئی جگہ نہیں ملتی۔

منیرنیازی کی غزلیں قافیے اور ردیف کی پابندیوں کے باوجود اپنی آواز کو دوسروں تک پہنچاتی نظرآتی ہیں۔ شعری لوازمات کی پابندی نے اس شاعری کومحدود نہیں کیا۔ اور نظموں میں تو منیرنیازی کاجادو کھل کر سامنے آیاہے۔ ہم ان نظموں کی مدد سے ایسے شاعر سے ملتے ہیں جس کے سامنے جہان رنگوں کا بستا ہے جس سے وہ اپنی مرضی کے رنگ لے کر خوف کو طاقت بنا رہاہے۔ ہوا ،موسم، شہر ،وجود اس شاعری میں ایسی آسیبی فضا کی تشکیل کرتے ہیں جو فضا معاصر شاعری میں دور تک نظرنہیں آتی۔ معاصر ایک طرف ماضی میں بھی کسی شاعر کے ہاں یہ فضا نہیں ہے اور شاعری کی صدیوں قدیم فضا سے خود کو الگ کر لینا تھوڑے کمال کی بات نہیں۔

منیراپنی شاعری میں امیجز کی انفرادیت کے اعتبار سے یکتا ہے ۔ وہ چیزوں کو چھو کر نیا کردیتا ہے۔ اس کی شاعری تاریخ کا کوئی باب نہیں بنتی بلکہ ہر دم رواں زندگی کی قاشوں کو اتارتی نظرآتی ہے۔

’’ایک پتے سے خطاب‘‘

اتنا اونچا اُڑ رے پتے

جتنے اونچے تارے ہیں

جو دھرتی کو دور سے تکتی

آنکھ کو کتنے پیارے ہیں

آپ تخاطب میں انفرادیت کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ یہ اس نوع کے خطابات کی شاعری نہیں جن میں سماج سدھار منصوبے کام کررہے ہوتے ہیں۔ مختلف طرح کے ازم کام دکھا رہے ہوتے ہیں۔

قاری اس شاعری سے کشف کے کئی لمحے اپنے دامنِ دل میں سمیٹ سکتا ہے۔ کئی طرح کے راز جومنیرکی چشم ورثہ شناس نے ماضی سے اپنے تل میں اتارے ہیں۔ ان رازوں نے میر اور اس کی شاعری دونوں میں ایسی لبھانے والی طاقت پیدا کردی ہے کہ کوئی اچھا قاری اس سے بچ نہیں سکتا۔

اس شاعری کے جادو سے بچنے اور بچانے کے لیے لوگوں نے کئی حربے استعمال کیے۔ڈر ہے، خوف کی شاعری ہے۔ جن، بھوت اور چڑیلیں بہت ہیں اس شاعری میں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا ہماری زندگیاں ڈر، خوف اور آسیب سے خالی ہیں۔ ایک دن میں کتنے ڈر ہیں جنھیں ہم پالتے ہیں۔ موت کا ڈر، جدائی کا ڈر، بھوک کا ڈر، بیماری کا ڈر، چوری کا ڈر، ظلم کا ڈر ناانصافی کا ڈر غرض یہ کہ جدول بنایا جا سکتا ہے۔ پھر اس شاعری میں ڈر کا بیان اگر ہے تو یہ انوکھا نہیں ہے۔

شاعری زندگی ہی تو ہوتی ہے۔ نسبتاً مرضی کی گزاری ہوئی زندگی۔ خوداختیار کردہ زندگی۔ خود ساختہ فضا میں سانس لینے کی کوشش۔ مقبول نظریات کا اتباع شاعر کے لیے نیک فال نہیں ہوتا۔ اس کا وجود ہی اس کی پناہ گاہ ہوتا ہے۔ منیر نے اپنی گزاری ہوئی زندگی کو اپنی شاعری میں گزارا ہے۔ اس نے شاعری بسر کی ہے۔ اس گزران نے اس کی شاعری میں نرولتا پیدا کر دی ہے۔ جو ایک آنکھ سے نئی نظر آتی ہے اور ایک آنکھ سے پرانی۔ بات بھی ٹھیک ہے۔ ہر پرانا کبھی نیا تھا اور ہر نیا بعد میں پرانا ہو جائے گا۔ منیر نے یاد کی مدد سے محل تیار کیا ہے۔ بارہ برجوں والا محل۔ ہر دروازے کو کھولنے کا الگ اسم ہے۔ ادھر اسم بھولا اُدھر آپ اس شاعری سے دور ہوئے۔ راستی اور اصالت ہی اس شاعری کی دنیا میں داخلے کے سامان ہیں۔ یہ حیران آدمی کی بپتا ہے۔ اس میں ناٹک نہیں ہے۔ دل کا بیان ہے۔ منیر نے اپنے اندر کے سچ سے کئی دل مسخر کر لیے ہیں اور وہ گلیوں بازاروں میں گاتے پھرتے ہیں:

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

تنہائیوں میں گھرا شاعر یا شاعر میں گھری تنہائیاں، منیر نے اسی ظاہر اور باطن سے فیض اٹھایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).