نئے پاکستان کے نئے کام ،نئی منطقیں


نئے پاکستان کا قصہ ہے کہ قاضی القضاء نے آبادی میں خطرناک اضافے کے خلاف غیر معمولی اقدامات پر نئے پاکستان کے بانی کو تہنیتی شیلڈ مرحمت فرمائی۔ بانی نیا پاکستان جو اپنی حکومت کی 100 روزہ کارکردگی میں دیگرکسی کام میں حسن کارکردگی کا تمغہ حاصل نہ کرپائے تھے اس اقدام سے ممنون احسان ہوئے اور وسعت قلبی کامظاہرہ کرتے ہوئے قاضی القضاء کو یہ کہنے میں عار نہ سمجھا کہ انہی کے ایک فیصلے کی بدولت وہ اس مقام پر پہنچے ہیں اور نیا پاکستان کی اصل بانی درحقیقت اُن کی ذات گرامی ہے۔

نئے پاکستان کی ہی بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ، ان کی بہن اورقریبی دوست وحکومتی عہدیدار سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والے قاضی القضاء نے ان سے ون آن ون ملاقات کی اوراس ملاقات میں ماضی کے برعکس ہرگز کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف ہو، انہیں جانبداربناتی ہو یا پھرکیس اور فیصلے پراثراندازہوتی ہو۔ خدا سلامت رکھے اس نئی اختراع کے بعد وکیل کرنے کے بجائے جج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور عدالتوں میں زیرالتوا لاکھوں مقدمات جلد نمٹ جانے کی امید ہو چلی ہے۔

اسی دورکا ذکر ہے نئے پاکستان کے پہلے گورنرجنرل نئے پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد سے قطعی طور پر مُکر گئے ہربار جب وہ اپنی ہی کہی ہوئی بات کے برعکس کوئی کام کرتے تو بعض ناسمجھ کہتے کہ ”یوٹرن“ لے لیا جس پربانی نیا پاکستان نے نئے قولِ زریں کہ ”جو یوٹرن نہیں لیتا وہ کبھی عظیم رہنما نہیں بن سکتا“ کے ذریعے ان کے منہ بند کرائے ان کے بعض حواریوں نے توان کے اس قول زریں کی قرآن وحدیث سے توثیق کی کوشش بھی کی۔

پرانے پاکستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کی آباد کاری کے لئے وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوا لیکن نئے پاکستان میں گھربار ایسی منطق کے ساتھ چھُڑائے گئے کہ جس سے وسائل پیدا ہونے تھے جو نیا پاکستان چلانے میں معاون ہوتے تاہم اس موقع پر اعدادوشمارکی شاید کوئی غلطی ہوگئی جو نیا پاکستان قیام کے فوراً بعد ہی معاشی بحران کا شکار ہو گیا۔ نئے پاکستان کے خوددار گورنرجنرل کو کشکول اٹھا کر دوست ملکوں کی جانب دیکھنا پڑا۔ اپنے روپے کی قدر ڈالرکے مقابلے میں تاریخ کی بدترین سطح تک گرانی پڑی اور عوام کو مہنگائی کے سونامی کا تحفہ دینا پڑا۔

پرانے پاکستان میں معیشت کو سنبھالا دینا سب سے مشکل کام سمجھا جاتا تھا حکومتیں اپنی ٹیم سے بہترین افراد، معاشی ماہرین اوراقتصادی سوجھ بوجھ کے حامل افراد کو اس کام پرمتعین کرتی تھیں لیکن نئے پاکستان میں یہ کام بھی نئی منطق اور نئے انداز سے انجام دینے کی روایت ڈالی گئی۔ وزیرخزانہ صبح اٹھ کرتیز میوزک سنتے تھے اور شام میں بھی اسی طرز کی ایک محفل رکھی جاتی جس سے گردش خون اورگردشِ زرتیز رہنے کا امکان متوقع ہوتا تھا تاہم ذرا سی کوتاہی مطلوبہ نتائج سے محروم کردیتی تھی اور نئے پاکستان میں ایسی کوتاہیاں کئی بار ہوئیں۔

پرانے پاکستان میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی باتیں حتیٰ کہ دل میں چھپی خواہشات بھی وطن سے غداری سمجھی جاتی تھیں اس دورمیں قریبی ہمسایہ ممالک نے ملکی قیادت کے ساتھ دوطرفہ تعاون بڑھانے کی متعدد کوششیں کیں۔ کئی ایک توخود چل کربھی آئے لیکن نہ جانے کہاں سے بعض ”محبِ وطن“ آن وارد ہوتے تھے اور غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگا کر انہیں پریشان کرتے رہتے تھے۔

نئے پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے بانی نیا پاکستان خود کئی بار ہمسایہ ممالک کی قیادت سے راہ ورسم بڑھانے کے لئے رختِ سفرباندھ چکے ہیں خطوط کا تبادلہ بھی کیا آنے کی دعوتیں بھی دے کردیکھ لیں مصاحب اور درباری حضرات بھی دل وجان سے محبت بھرے پیغامات پہنچا رہے ہیں لیکن ہمسایہ ممالک ہیں کہ سننے کو تیار ہی نہیں اُلٹا ویسے ہی نعرے لگا کرجواب دے رہے ہیں جیسے پرانے پاکستان میں لگا کرتے تھے۔

یہ بھی نئے پاکستان کا قصہ ہے کہ بانی نیا پاکستان، سپہ سالار واشرافیہ اورقاضی القضاء ایک پیج، ایک باب اورایک ہی کتاب پرہیں۔ پرانے پاکستان میں یہ صرف غداروں، توہین مذہب کے خطاکاروں اوردادا پردادا سمیت آباؤ اجداد کا حساب دینے کے ذمہ داروں کے خلاف ایک پیج پرہوا کرتے تھے۔ نئے پاکستان میں کبھی بانی نیا پاکستان کی زبان پھسل جاتی ہے اوروہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ( آئین کے تحت غیرجانبدار اور غیرسیاسی رہنے کے پابند) ادارے پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ ہیں تو کبھی ادارے کے ترجمان کھل کر کہہ اٹھتے ہیں کہ 6 ماہ کے لئے سب اچھا دکھایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).