وائجر ٹو نظام شمسی کی حد سے باہر نکل گیا


وائجر ٹو نامی خلائی جہاز جسے 1977 میں خلا میں روانہ کیا گیا تھا، انسان کی تخلیق کردہ وہ دوسری چیز بن گیا ہے جو نظام شمسی کی حد سے باہر نکل گئی ہے۔

اسے اس کے جڑواں خلائی جہاز وائجر ون سے 16 دن پہلے لانچ کیا گیا گیا تھا لیکن وائجر ون اپنی تیز رفتاری کے سبب ‘ستاروں کے درمیان خلا میں’ وائجر ٹو کے مقابلے میں چھ سال پہلے پہنچ گیا۔

اس بات کا انکشاف واشنگٹن میں منعقدہ امریکن جیوفیزیکل یونین (اے جی یو) کی کانفرنس میں کیا گیا اور اس مشن پر مقرر چیف سائنسداں پروفیسر ایڈورڈ سٹون نے اس کی تصدیق کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جاپانی روبوٹ سیارچے پر اترنے کے قریب

خلائی جہاز کیسینی زحل سے ٹکرا کر تباہ

انھوں نے کہا کہ دونوں تحقیقاتی خلائی جہاز اب ‘ستاروں کےدرمیان ہیں’ اور وائجر ٹو نظام شمسی کے دائرے سے پانچ نومبر سنہ 2018 کو نکل گیا۔

اس دن سورج سے نکلنے والی شعاع کے ذرات جس کا خلائی جہاز وائجر ٹو سراغ رکھتا تھا اچانک ماند پڑ گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ‘ہیلیو پاز’ عبور کر چکا ہے۔

ہیلیو پاز کی اصطلاح سورج کی سرحد یا محفوظ بلبلے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں تک اس کی قوت کشش کام کرتی ہے۔

ہر چند کہ اس سفر میں اس کا جڑواں خلائی جہاز پہلے نظام شمسی کی حد سے نکل چکا ہے تاہم امریکی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وائجر ٹو میں ایک ایسا آلہ نصب ہے جو نظام شمسی سے نکلنے اور کہکشاؤں کے درمیان جانے کے سفر کا مشاہدہ پہلی بار بھیجے گا۔

یہ خلائی جہاز ابھی زمین سے 18 ارب کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ تقریبا 54 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ وائجر ون اس سے آگے ہے اور اس سے تیز رفتار ہے۔ یہ ابھی 22 ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور 61 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

کیا وائجر ٹیم نے نظام شمسی سے ماورا دریافت کا منصوبہ بنایا تھا؟

وائجر کو بنیادی طور پر سیاروں کے باہر کی فضا کے مطالعے کے لیے بھیجا گيا تھا لیکن وہ آگے کی جانب بڑھتا رہا۔

پروفیسر سٹون نے کہا کہ اس مشن کے آغاز پر ٹیم کو اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اسے سورج کے محافظ بلبلے یا ہیلیو سفیئر کے کنارے تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔

انھوں نے کہا: ‘ہمیں پتہ نہیں کہ وہ ببل یا بلبلہ کتنا بڑا ہے۔ وہاں پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اور کیا خلائی جہاز اس مدت تک محفوظ رہے گا بھی یا نہیں۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘اب ہم مقامی ستاروں کے ذرائع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ وائجرز کے 41 سالہ سفر کا انتہائی دلچسپ مرحلہ ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

لمبوترا مہمان سیارچہ یا خلائی مخلوق کا جہاز؟

چاند کے سفر کے پہلے نجی امیدوار کا اعلان

سائنسدان نظام شمسی کی مختلف طور پر تعریف کرتے ہیں اس لیے پروفیسر سٹون ہمیشہ اپنے خلائی جہاز کے ‘نظام شمسی کی حد کو چھوڑنے’ جیسے قطعی جملوں کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔انھیں اندازہ ہے کہ ناسا کے اس خلائی جہاز کو ابھی اورٹ (برفیلے اور پتھریلے اجسام فلکی کے) بادلوں سے گزرنا ہے جہاں شہابیے سورج کی قوت کشش سے بندھے ہوئے ہیں خواہ وہ بندھن کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

ان سب کے باوجود دونوں خلائی جہاز یقینا ابھی خلا کے اس حصے میں ہے جہاں ابھی تک کوئی دریافت نہیں کی گئی ہے۔

اس سفر میں کتنی مدت لگی؟

اس میں دہائیوں کا وقت اور اربوں کلومیٹرکا فاصلہ شامل ہے۔ وائجر ون پانچ ستمبر سنہ 1977 کو اپنے جڑواں خلائی جہاز وائجر ٹو کے چند دنوں بعد زمین سے رخصت ہوا تھا۔

ان دونوں خلائی جہاز کا بنیادی مقصد مشتری، زحل ، یورانس اور نیپچون کا جائزہ لینا تھا جو انھوں نے سنہ 1989 تک مکمل کر لیا تھا۔

اس کے بعد انھیں دور خلا کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ اس کو توانائی فراہم کرنے والا پلوٹونیم ایک دن بالآخر اسے بجلی فراہم کرنا بند کر دے گا اس وقت اس کے آلات اور 20 واٹ کا ٹرانسمیٹر ختم ہو جائے گا۔

وائجر کی پروجیکٹ مینیجر سوزانے ڈوڈ نے بی بی سی کو بتایا ان کی خواہش ہے کہ یہ سنہ 2027 تک کام کرتے رہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’50 سالہ پرانے مشن کو کام کرتے ہوئے دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا۔’ انھوں نے ان خلائی جہازوں کو ستاروں کے درمیان جانچ کرنے والا ‘راہبر’ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ‘وہ اکثروبیشتر گھر فون کرتا رہے گا کہ میں ابھی بھی چل رہا ہوں۔ مجھے نہ بھولیں۔’

وائجر ون اگر اسی رفتار سے چلتا رہا تو 40 ہزار سال تک اس کی کسی دوسرے ستارے سے ملاقات نہیں ہوگی۔ لیکن اگر یہ اربوں سال تک چلتا رہا تو ہماری کہکشاں کے مرکز میں پہنچ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp