خواجہ سعد رفیق بھی گرفتار


 

چند روز پرانی بات ہے کہ خواجہ سعد رفیق سے ملاقا ت ہوئی، وہاں مسلم لیگ نون کے کچھ کارکن بھی موجود تھے، مقصد سیاسی صورتحال پر خود کو اپ ڈیٹ رکھنا تھا، میرا خواجہ سعد رفیق سے سٹوڈنٹس پالیٹیکس کے دور کا تعلق ہے اور یوں کبھی کبھار ہونے والی ملاقاتوں میں بہت ساری آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ باتیں تجزیوں اور تبصروں میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وہ ایک کارکن کو خبردار کر رہے تھے کہ اس کی سوشل میڈیا پوسٹس لائن کراس کر رہی ہیں، ہمارا کسی سے بھی سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے مگر پاکستان کی سالمیت اوراداروں کی عزت پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 وہ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ نون کے کسی بھی کارکن کو فوج یا عدلیہ کے خلاف کسی قسم کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا کچھ افراد، ان کے اقدامات اور فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی وجہ سے اداروں پر تنقید پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو گی۔ مجھے پرویز مشرف کے مارشل لاء کا ابتدائی دور یاد آ گیا جب مسلم لیگ ہاوس ابھی مسلم لیگ (ن) ہی کے پاس تھا۔ تہہ خانے میں بنے ہوئے آڈیٹوریم میں مسلم لیگ نون کے ’ہاکس‘ گرما گرم تقریریں کر رہے تھے اور پاکستان میں آمرانہ اقدامات کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہے تھے تو وہ اس اجلاس سے اٹھ کے چلے آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ میں نہ ایسی باتیں کروں گا اور نہ ہی سنوں گا۔

میں نے ایک مرتبہ خواجہ سعد رفیق سے پوچھا، آپ کے بہت سارے ناقدین کہتے ہیں کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے ملے ہوئے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنی پارٹی کے ساتھ اس وقت بھی کھڑا رہا جب بہت سارے چھوڑ کر چلے گئے، اس ملک میں آئین، قانون اور جمہوریت کی جدوجہد میرے والد نے اپنی جان کی قربانی دی، میں اس وقت بھی مشرف کی جیل میں تھا جب میری والدہ بستر مرگ پر پہنچیں، میں نے خود جیلیں کاٹیں مگر میں چند اعتراض کرنے والوں کی خاطر ان کی مرضی کی سیاست نہیں کر سکتا، ان کی مرضی کے بیانات نہیں دے سکتا، میں اسلام، پاکستان اور جمہوریت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا مگر دوسری طرف اس حد کو بھی عبور نہیں کر سکتا جو ایک ذمہ دار محب وطن سیاستدان کے طور پرمیرے سامنے ہے کہ غیر ذمہ دارانہ سیاست کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا تھا، اب ملک ایسی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

 کہنے والے جو مرضی کہتے رہیں کہ دنیا تو کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتی۔ ابھی چند روزقبل ہی ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران کچھ سینئر وکلا سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے شہباز شریف اور سعد رفیق کے مقدمات کے بارے میں پوچھا۔ سینر وکلا کی ماہرانہ رائے تھی کہ قیصر امین بٹ کے وعدہ معاف گواہ بن جانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ وہ نہ صرف منشیات کے عادی ہیں بلکہ دوران حراست تین بیان بھی تبدیل کر چکے ہیں۔ پہلے بیان میں انہوں نے خواجہ سعد رفیق پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ ندیم ضیاء سے ان کی ملاقات خواجہ سعد رفیق نے کروائی اور کاروباری لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرواتے اور کاروبار کے آپشن دیتے رہتے ہیں جو کوئی جرم نہیں مگر اس کے بعد قیصر امین بٹ کو دوبارہ نیب کی تحویل میں دے دیا گیا، ان سے نیب کی مرضی کے مطابق ایک نیا بیان لیا گیا۔ وکلاء کی رائے تھی کہ اس بیان کے بعد بھی ایسے ثبوتوں کی ضرورت ہے جو اس بیان کو سچ ثابت کریں کہ نیب کی تحویل میں محض قیصر امین بٹ کی طرف سے الزام لگا دینا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

الزامات کا فیصلہ قانون اور عوام کی عدالت میں ہو تا رہے گا کہ اس سے پہلے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی گرفتار ی اور پیشیوں کے بعد اس بنیاد پر جوڈیشئل ریمانڈ پر بھیجے جا چکے ہیں کہ نیب ان کے خلاف آشیانہ اقبال کیس میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا، جب آشیانہ اقبال کیس میں کچھ نہیں ملا تو صاف پانی کا ایشو بھی اٹھایا گیا اور شوگر مل کے گندے نالے کی تعمیر کے بعد اثاثہ جات کے معاملات بھی اٹھائے گئے۔

سیاستدانوں کے فیصلے اصل میں عوام کی عدالتوں میں ہی ہوتے ہیں ورنہ اس سے پہلے ہماری عدالتیں بھی بہت سارے سیاست دانوں کو قاتل سے ہائی جیکر تک قرار دے کر سزائیں سنا چکی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق انہی الزامات کے شور میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی جیتے اور قومی اسمبلی میں بھی اپنی سیٹ واپس لی۔ خواجہ سعد رفیق کی چھوڑی ہوئی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کل جمعرات کو ضمنی ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے اور اب تک سرویز کے مطابق مسلم لیگ نون یہ سیٹ بڑے مارجن سے دوبارہ جیتتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

 غیر جانبدار تجزیہ کاروں سے لے کرعوام تک سب کا اتفاق رائے ہے کہ اس وقت یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو اس کے باوجود گرفتار کیا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، ریفرنس دائر نہیں مگر دوسری طرف حکمران پارٹی کے لوگوں کو مکمل رعائت ہی نہیں دی جا رہی بلکہ نیب حکام ان کا مقدمہ ٹی وی چینلوں پرلڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب تک ریفرنس دائر ہونے سے قبل ہونے والی گرفتاریاں ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ سیاسی اور انتقامی نوعیت کی ہیں۔

 یہ وقت مسلم لیگ نون کے لئے کڑا ہے اور اسے حکمت اور تدبر کے ساتھ ہی گزارا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ اور قائد میاں محمد نواز شریف کی خاموشی حیرت انگیز لگتی رہی ہے مگر دسمبر کے اس ستم گر مہینے میں میر ا اب خیال ہے کہ ملک اور قوم کے مفاد میں ان کی خاموشی ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔ نواز شریف اس وقت ملک میں سب سے سینئر، تجربہ کار اور مدبر سیاستدان ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی جماعت پر اس سے پہلے آنے والا مشکل ترین وقت بھی گزر گیا تھا جب پرویز مشرف انہیں پھانسی پر چڑھانا چاہتا تھا اور انہیں جلاوطنی قبول کرنا پڑی تھی، اچھے وقت کی خامی اور برے وقت کی خوبی ایک ہی ہوتی ہے، یہ کہ یہ دونوں وقت ہمیشہ نہیں رہتے۔

میں نے اپنے کالموں میں اکثر آصف علی زرداری کو اس بات پر خراج تحسین پیش کیا ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پورے سندھ میں آگ لگی ہوئی تھی تو وہ اس وقت انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ اس ستم گر دسمبرکا اکہتر کا تجربہ بتاتا ہے کہ نواز شریف کی خاموشی اور آصف زرداری کا پاکستان کھپے کا نعرہ ان پر لگنے والے ہزاروں الزامات پر بھاری ہیں۔ کھول کر صاف صاف بیان کر دوں، ہم نے پڑھا ہے اور ہمارے بزرگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہاں اپنا حق نہ ملنے پر مجیب الرحمان نے بغاوت کر دی تھی، ایسے میں یہ اپنی زندگیاں قربان کرنے والے، خاموشی سے جیلوں میں چلے جانے والے، جلاوطنیاں او رکوڑے برداشت کرنے والے سب پاکستان پر احسان کرتے ہیں۔ اس تلخ ترین ماحول کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں شکایات کے باوجود کوئی قومی سطح کا سیاستدان مجیب الرحمان بننے کا نہیں سوچ رہا۔

میں جس سعد رفیق کو جانتا ہوں وہ ایک اسلام اور پاکستان سے دیوانہ وار محبت کرنے والا ہے، وہ اپنے والد کے خون کی لاج رکھتے ہوئے جمہوریت کے ساتھ کمٹڈ ہے۔ ریلوے کے افسران گواہی دیں گے کہ اس نے اتنی بھی کرپشن نہیں کی کہ ریلوے کی بہتری کے لئے ہونے والے لمبے لمبے اجلاسوں میں ریلوے کے پلے سے کھانا بھی منگوایا ہو۔ میں خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ اپنے ملک سے عشق اور اپنے عوام سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ عشق کسی دور میں آسان نہیں رہا، بہ زبان شاعر، یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).