گومل ڈیم لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود مطلوبہ بجلی کیوں پیدا نہ کر سکا؟


پاکستان کا گومل زام ڈیم کئی کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود بجلی کی مطلوبہ پیداوار نہیں دے سکا۔ اس منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا اور یہ منصوبہ مقررہ مدت کے اندر مکمل بھی نہیں ہوسکا۔

یہ انکشاف امریکی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کے انسپکٹر جنرل نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں کیا ہے جو کہ رواں برس جاری کی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2010 میں امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں پانی کے بحران اور بجلی کی قلت میں مدد کے لیے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت یو ایس ایڈ نے جنوری سنہ 2011 میں حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیا، جس میں گومل زام کثیر المقاصد ڈیم کی تعمیر شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کشن گنگا منصوبے پر تنازع کیا ہے؟

ایک اور ڈیم سے دریائے سندھ کا گلا گُھٹ جائے گا؟

رپورٹ کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر کے چار مقاصد تھے، جن میں پہلا ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر تھی جس سے 17.4 میگاواٹ بجلی کی پیدوار حاصل ہو سکے۔ دوسرا اس ڈیم سے نہریں اور نکاسی کا نظام بنایا جانا تھا جس سے تقریبا دو لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کیا جا سکے۔ تیسرا وارن کینال کی تعمیر اور چوتھا پانی کی تقسیم کے مؤثر نظام کے لیے کمانڈ ایریا ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کی تشکیل تھی۔ ان منصوبوں پر 16.68 ملین ڈالر لاگت آئی۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کا گڑھ رہا ہے، جن کو نشانہ بنانے کے لیے امریکہ نے کئی بار ڈرونز حملے کیے جبکہ حکومت پاکستان بھی متعدد بار آپریشن کرچکی ہے۔

آفس آف دی انسپکٹر جنرل آڈٹ نے اس رپورٹ کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ یو ایس ایڈ اور حکومت پاکستان نے معاہدے کی بنیادی عناصر پر کتنا عملد آرمد کیا ہے؟ اور خاص طور پر یہ جائزہ لینا کہ گومل زام ڈیم کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ مکمل ہوا اور مطلوبہ بجلی فراہم کر رہا ہے اور کیا یہ منصوبہ اس کے ڈھانچے کی تعمیر کے حوالے سے درست ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں دفتر انسپکٹر جنرل آڈٹ نے منصوبے کے شراکت داروں، یو ایس ایڈ اور حکومت پاکستان کے حکام، منصوبے کے کانٹریکٹرز اور سب کانٹریکٹرز اور ان سے مستفید ہونے والوں کے انٹرویوز کیے، دستاویزات کا جائزہ لینے کے علاوہ غیر جانبدار انجینیئرز کی جائزہ رپورٹ اور تیسرے فریق کی رپورٹس کا جائزہ لیا۔

رپورٹ میں لکھا ہے: ‘ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گومل زام ڈیم کے منصوبے سے مطلوبہ (4۔17 میگاواٹ) بجلی کی پیداوار نہیں ہو رہی ہے۔۔۔ یہ منصوبہ جون سنہ 2013 میں مکمل کر کے حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔۔۔ حکومت پاکستان کے مطابق اس وقت بجلی کی پیداوار کبھی کبھار ہوتی تھی لیکن کبھی بھی مکمل گنجائش کے مطابق پیداوار نہیں ہوئی۔ اکتوبر سنہ 2016 میں منصوبے کا حفاظتی نظام فیل ہوگیا اور پاور ہاؤس کے دونوں روٹرز جل گئے، جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار معطل ہو گئی جو تاحال بحال نہیں ہوسکی ہے۔’

یاد رہے کہ یہ رپورٹ فروری سنہ 2018 میں جاری کی گئی تھی جس میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاور ہاؤس اور سٹیشن کے درمیان 132 کلو واٹ لائن میں وولٹیج کا اتار چڑھاؤ ہوتا رہا اور پاؤر ہاؤس میں اس سے محفوظ رہنے کا نظام فیل ہوگیا جس کے نتیجے میں پاور ہاؤس اور اس کے دیگر شعبے متاثر ہوئے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ پیدواری یونٹس اور پاور ہاؤس میں ناقص کام ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کام سب کانٹریکٹر کا تھا، جبکہ دوسری جانب ایف ڈبلیو او (عسکری انجنیئرنگ شعبہ) کا کہنا ہے کہ واپڈا نے ڈیم کے معاملات چلانے کے لیے ماہر اور قابل عملہ تعینات نہیں کیا تھا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گومل زام ڈیم کا منصوبہ تو مکمل ہو گیا لیکن اس سے نکلنے والا نکاسی آب کا ڈھانچہ 30 ماہ تاخیر کا شکار رہا۔ واپڈا نے وقت پر سب کانٹریکٹر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن یعنی ایف ڈبلیو او کو ادائیگیاں نہیں کیں اور امن و امان کی وجہ سے بھی منصوبے میں رخنہ پڑا۔ غیر جانبدار مانیٹرنگ انجینیئرنگ فرم کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آبپاشی ڈھانچہ جولائی سنہ 2016 کو مکمل ہوا اور منصوبے کی لاگت چار کروڑ ڈالرز سے تجاوز کر کے ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔

آڈٹ رپورٹ میں ماحول کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات پر بھی شک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مشن کو ابھی تک یہ یقین نہیں ہے کہ واپڈا نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہ اقدامات اٹھائے ہیں یا نہیں جن خدشات اور تحفظات کا اظہار ماحولیاتی تـجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔

ڈیم اور اس سے نکالی گئی نہروں کی تعمیر کے دوران جن مقامات سے ریت یا بجری حاصل کی گئی یا ہٹائی گئی ان گڑھوں کو دوبارہ نہیں بھرا گیا۔ واپڈا کے ایک اہلکار کے مطابق ایف ڈبلیو او کو ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے یہ کام مقررہ وقت پر مکمل نہیں ہو سکا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نامکمل منصوبے کی وجہ سے یو ایس ایڈ کی ساکھ داؤ پر ہے، اس لیے کچھ اضافی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس منصوبے کے اصل مقاصد حاصل کیے جائیں۔

ڈیموں کے معاملے پر مزید پڑھیے

کیا چندہ جمع کر کے ڈیم بن سکتا ہے؟

ڈیم فنڈ کا چندہ اور جعلی اکاؤنٹس کی چاندی

ڈیم فولوں پر آرٹیکل چھ ضرور لگنا چاہیے

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جب تک یو ایس آئی ڈی بجلی کی پیدوار کی بحالی کا مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرتی اور گڑھوں کے ازالے کے اقدامات نہیں کیے جاتے پاکستانی شہری امریکہ کی اس سرمایہ کاری سے مستفید نہیں ہوسکیں گے یو ایس ایڈ کی ساکھ داؤ پر رہے گی اور قومی سلامتی کے فوائد بھی حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

رپورٹ میں گومل زم ڈیم کے اریگیشن کے نظام پر ہونے والے اضافی اخراجات 5۔11 ملین ڈالرز واپڈا سے وصول کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔


گومل زام ڈیم میں بجلی کے پیداواری یونٹس میں نقص کا ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، واپڈا کی جانب سے بحالی کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں اور انسپکٹر جنرل آفس نے واپڈا سے جس رقم کی وصولی کا کہا ہے، اس پر واپڈا کا کیا موقف ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے چیئرمین واپڈا اور ترجمان سے تحریری طور پر موقف طلب کیا گیا، جس کے بعد یاد دہانی بھی کرائی گئی لیکن واپڈا کا موقف تاحال سامنے نہیں آسکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp