قائدِ اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کے درمیان جھگڑوں کی بنیادی وجہ کیا ہے؟


رقص

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع قائدِ اعظم یونیورسٹی میں آئے دن طلبا کے درمیان جھگڑوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں دو طلبہ کونسلز کے درمیان جھگڑے کی خبریں سامنے آئی ہیں جس کی وجہ یونیورسٹی میں ہونے والا ثقافتی پروگرام بتایا جا رہا ہے۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کے درمیان جھگڑوں کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ان جھگڑوں کی بنیاد زیادہ تر قومیت اور لسانی تفریق بتائی جاتی ہیں لیکن قائدِ اعظم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ’ان جھگڑوں کی وجہ کچھ بھی ہو اس کو لسانی رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بلوچ اور مہران کونسل کے درمیان ہونے والا جھگڑا دراصل ایک پکنک کے دوران پیش آیا تھا جو بڑھ کر قومیت کا معاملہ بن گیا۔

اسی بارے میں مزید پڑھیں!

’میں خود کو سندھی نہیں بلوچ مانتا ہوں‘

قائد اعظم یونیورسٹی کے 75 طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج

قائداعظم یونیورسٹی میں پھر احتجاج، 60 سے زائد طلبہ گرفتار

وہ کہتے ہیں کہ ’جب فریقین سے بات کی گئی تو پتا چلا کہ یہ ذاتی مسئلہ تھا۔ جھگڑے کی وجہ ایک گروہ نے یہ بتائی کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے اور دوسرا گروہ ہمیں گھورا کرتا تھا اور یہ ہم سے برداشت نہیں ہوا۔ اس میں کہیں بھی مسلک اور قومیت کی بات نہیں تھی۔‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے مہران کونسل کے جنرل سیکریٹری اعجاز چانڈیو نے کہا کہ ’بحث اور اختلافِ رائے کہاں نہیں ہوتی؟ فرق یہ ہے کہ ہماری بحث اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑوں کو زیادہ ہوا دی جاتی ہے۔ اور بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہی کونسل جب ’لطیف ڈے‘ پر ایک ساتھ اجرک پہن کر سامنے آتی ہیں تب کوئی دھیان نہیں دیتا اور نہ ہی تذکرہ کرتا ہے۔

یونیورسٹی

زیادہ تر جھگڑوں کی بنیاد قومیت کیوں بنتی ہے؟

طلبہ یونین سازی پر 1984 سے پابندی ہے۔ اسی یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر پرویز ہود بھائی کے مطابق اس پابندی کے نتیجے میں 1980 کی دہائی کے آخر میں طلبہ کونسل بنائی گئیں لیکن ان کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ سیاسی بحث و مباحثے کو فروغ دے سکیں۔ چونکہ قائدِ اعظم یونیورسٹی وفاقی دارالحکومت کا حصہ ہے، تو ان کونسل کی ساخت بھی مسلک اور قومیت ہی ہے۔

جس کے نتیجے میں ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر طلبہ سیاسی بحث سے یہ کہہ کر دور رہتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ جبکہ وہ خود بہت آسانی سے قومیت اور لسانی بنیادوں پر اکسایے جاتے ہیں اور نتیجتاً جھگڑے ہوتے ہیں۔

پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ’آج اگر آپ قائدِ اعظم یونیورسٹی چلے جائیں تو آپ کو ہر طالبِ علم اپنے اپنے گروہوں میں بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔ پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچ اپنے اپنے گروہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں ان کونسل کو یہ تاثر دینا آسان ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کے مسائل قومیت سے منسلک ہیں، جبکہ در حقیقت ایسا نہ ہو۔‘

طلبہ یونین کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ طلبہ کی تنظیم کو باقاعدہ تسلیم کرکے یا ممکنہ نمائندوں کو اختیار دیا جائے تاکہ وہ ووٹ ڈال کر اپنے نمائندے چُنیں۔ لیکن قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبِ علم حسرت طوری ، جن کا تعلق پختون کونسل سے ہے، ان کے خیال میں ’اس وقت تمام طلبہ یونین اپنی اپنی اجارہ داری جتانا چاہ رہے ہیں۔ اس وقت قائدِ اعظم یونیورسٹی میں موجود چھ طلبہ کونسلز کا نظام پدر شاہی اور غیر جمہوری ہے۔ لیکن زیادہ تر طلبہ اس پر اس لیے اعتراض نہیں کرتے کیونکہ ان کو 35 سال سے بتایا گیا ہے کہ سیاسی گفتگو اور بغیر مار دھاڑ کے اختلافِ رائے رکھنا غلط ہے۔‘

حال ہی میں یونیورسٹی کے احاطے میں ہونے والے جھگڑوں کی وجہ سے اب تک یونیورسٹی دو مہینے تک بند رہی ہے۔ ان میں جہاں اساتذہ طلبہ اور انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھراتے ہیں، وہیں طلبہ صرف انتظامیہ پر ان جھگڑوں کو مزید ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

اعجاز چانڈیو نے بتایا کہ اکثر جانتے بوجھتے ہوئے اُن طلبہ کو ساتھ کمرا دیا جاتا ہے جو مخالف گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’جب دو لوگ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے اور مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کو ایک ساتھ ایک جگہ پر بٹھانے کا مقصد اگر مزید انتشار پھیلانا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟‘

یونیورسٹی

کیا طلبا کونسلز کسی بات پر متفق اور متحد ہیں؟

یونیورسٹی میں موجود سہولیات کی جب بات آتی ہے تو تقریباً تمام طلبا کونسلز اس پر متفق ہوجاتی ہیں ـ ان میں فیس کی زیادتی، یونیورسٹی کی خستہ حالت اور بسوں کے نظام پر احتجاج کیے گیے ہیں جن میں بلا امتیاز سب کونسلز نے شرکت کی ہے۔

جس کی مثال پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والا طلبہ کا احتجاج ہے جس میں جب تک بات دو گروہوں کے آپسی تنازع کی تھی تب تک تو باقی کونسلز الگ رہیں لیکن جب بات طلبہ کو پیش آنے والے مسائل کی آئی تب جا کر سب ایک ساتھ متحد ہو کر احتجاج کا حصہ بنے۔

فرحان صدیقی نے کہا کہ سہولیات کی کمی کے علاوہ، ’اسلامی جمعیت طلبا کی یونیورسٹی کے اندر کسی بھی طرح کی سرگرمی پر بھی تمام کونسلز ایک ساتھ ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کے جب کچھ عرصہ پہلے جمعیت یونیورسٹی میں درس کی محفل کا اہتمام کرنا چاہ رہی تھی تو اس وقت سب کونسلز نے یکجا ہوکر اس کی مخالفت کی تھی اور وہ محفل نہیں ہو سکی۔‘

فرحان نے کہا کہ اس کے علاوہ بائیں بازو کی تنظیمیں اور مسلک کی بنیاد پر بنائی گئی تنظیموں کو بھی جگہ نہیں دی جاتی۔

اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کونسلز کو ایک ساتھ لانے کا کوئی حل ہے؟

اعجاز چانڈیو نے کہا کہ اس وقت قائدین سٹوڈنٹ فیڈیریشن (کیو۔ ایس ۔ایف) ایک ایگزیکیٹو باڈی کے تحت سب کونسلز پر نظر بھی رکھتی ہے اور ان کو ایک ساتھ بٹھا کر بات بھی کر سکتی ہے۔

اعجاز چانڈیو نے کہا کہ ’اگر انتظامیہ اور کیو ایس ایف چاہیں تو ایسا طریقہ کار طے کر سکتے ہیں جس کی سب پیروی کریں۔ لیکن اس کے لیے پھر شروع سے چلتے آرہے ایک نظام کو بھی چیلنج کرنا پڑے گا جس کے نتائج بروقت نہیں مل سکیں گے۔‘

پرویز ہودبھائی نے کہا کہ اس وقت پورے سماج میں غیر جمہوری سوچ کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور آواز اٹھانے والوں کو دبا کر رکھا جارہا ہے۔

’جمہوریت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں جمہوریت قائم کی جائے۔ باقی ملکوں کے برعکس، پاکستان میں موجود تعلیمی ادارے سماج میں موجود خرابی کی عکاسی کررہی ہیں۔ شروعات اس سے کی جاسکتی ہے کہ زبان اور نسل کی بنیاد پر بات کرنے کے بجائے طلبہ کو پیش آنے والے مسائل پر بات کریں تاکہ مستقبل میں یہ کونسلز ایک یونین کی شکل اختیار کرلیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp