انڈیا انتخابات: راہل گاندھی کے بدلے تیور کس بات کی علامت ہیں؟


راہل گاندھی، نریندر مودی

انڈیا میں تین ریاستوں کے ودھانسبھا یعنی ریاستی اسمبلی کے انتخابات جیتنے کے بعد جب کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی ذرائع ابلاغ سے مخاطب ہوئے تو کئی ایسی باتیں کہہ گئے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ راہل اب ذمہ داریوں کے لیے تیار ہیں۔

عام طور پر انتخابات کے بعد ہونے والی پریس کانفرینس میں سیاسی جماعتوں کے رہنما پارٹی کے کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ راہل گاندھی نے الگ انداز میں میڈیا سے بات کی۔

پارٹی کارکنان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ سوالوں کے جواب دینے کے لیے اطمینان سے بیٹھے رہے۔ وہ بھاگنے کی جلدی میں نہیں دکھائی دیے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تین ریاستوں کی جیت نے انہیں نئی امید اور حوصلے سے بھر دیا ہے۔ ان کے تیور بدلے بدلے سے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا انتخابات: کیا مودی کو پریشان ہونا چاہیے؟

بی جے پی کی اہم ریاستوں میں شکست، کانگریس کا جشن

راہل گاندھی کے بدلے انداز کا ذکر پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی ٹی وی چینلون اور سوشل میڈیا پر بھی شروع ہو گیا۔

صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ بی جے پی ہمیشہ ’کانگریس سے آزاد‘ بھارت کی بات کرتی ہے۔ کیا کانگریس کی واپسی کے بعد ‘بی جے پی سے آزاد‘ بھارت کا آغاز ہوگا؟

کانگریس پارٹی

بائیں طرف سے کانگریس کے رہنما اشوک گہلوت، سچن پائلٹ، کملناتھ اور جیوتیرادتیہ سندھیا

دو مختلف برانڈ

راہل نے بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں جواب دیا کہ ’ہماری سوچ مختلف ہے۔ بی جے پی کا اپنا ایک نظریہ ہے۔ ہم اس نظریے کے خلاف لڑیں گے۔ ہم نے ان کو آج شکست دی ہے، ہم ان کو 2019 میں بھی شکست دیں گے۔ مگر ہم بھارت کو کسی سے آزاد نہیں کرانا چاہتے۔ اگر لوگوں کی سوچ ہم سے مختلف ہے تو ہم اس سوچ سے لڑیں گے۔ ہم انہیں ملک سے مٹانا نہیں چاہتے۔‘

برانڈ کنسلٹینٹ ہریش بجور کے مطابق ’راہل گاندھی کے اس بیان میں ان کا سب کو ساتھ لے کرچلنے کا نظریہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوریت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ بغیر حزب اختالف کے جمہوریت نہیں ہو سکتی، یہ بات راہل گاندھی سمجھتے ہیں اور یہی ان کے جواب میں ظاہر ہے۔ ان کا یہی رویہ انہیں برانڈ مودی سے جدا کرتا ہے۔‘

ہریش بجور کے مطابق ایک ہی طرح کے دو برانڈ بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تبھی مقابلہ کر پاتے ہیں جب دونوں میں بنیادی فرق ہو۔ سال 2019 کے اعتبار سے دیکھیں تو انڈین سیاست میں دو بنیادی فرق والے برانڈ صاف نظر آ رہے ہیں۔

راہل گاندھی

راہل گاندھی

راہل پر بھروسا بڑھا

انڈیا میں سینیئر صحافی نیرجا چوہدری ہریش بجور کی بات سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتی ہیں۔ لیکن وہ راہل کے بدلے انداز کو پوری طرح خارج بھی نہیں کرتی ہیں۔

ان کے مطابق راہل کا برانڈ تب بنے گا جب وہ عوام کی نبض پکڑ لیں گے۔ اس مرتبہ راہل ایسا کرنے میں تھوڑا کامیاب تو ہوئے ہیں۔ انہوں نے رفال ڈیل کی بات کی جس سے عوام زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ لیکن کاشتکاروں کی بات کر کے انہوں نے کاشتکاروں سے تعلق ضرور قائم کر لیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ پہلے سے بہتر ضرور ہوئے ہیں لیکن مودی کی طرح اب تک وہ جملہ بازی نہیں سیکھ پائے ہیں۔

تاہم نیرجا یہ بھی کہتی ہیں کہ راہل کی تازہ جیت نے ان کی اپنی جماعت کے اندر رہنما کے طور پر ان کی حیثیت میں اضافہ ضرور کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘نریندر مودی کا آخری داؤ’

مسلمان بی جے پی کی جیت کا کیا مطلب نکالیں؟

وندے ماترم کی سیاست میں پھنس گئے مسلمان

کانگریس پارٹی

بائیں طرف سے کانگریس کے رہنما اشوک گہلوت، سچن پائلٹ، کملناتھ اور جیوتیرادتیہ سندھیا

ہریش بجور کے بقول ’راہل گاندھی میں ابتدائی سیاسی اتار چڑھاو کے بعد اب جاکر ٹھہراؤ آیا ہے۔ راہل نے اچھی باتوں کو اپنایا ہے اور بری باتوں سے توبہ کر لی ہے۔ یہ فتح ان کے لیے بہت کار گر ثابت ہوگی۔‘

کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی تبھی ’برانڈ راہل‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے جب ان میں ’برانڈ مودی‘ سے جدا باتیں ہوں گی۔

ہریش بجور کہتے ہیں کہ ’مودی سب کا ساتھ اور سب کے لیے مواقع کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ کس کی ترقی کر رہے ہیں۔ راہل نے ان انتخابات میں دکھا دیا ہے کہ نوجوانوں کے جوش، پارٹی کے تجربہ کار سیاست دانوں اور نسلی برابری کے موضوع کو ساتھ لیےکر چلا جا سکتا ہے۔‘

’پپو‘ کی امیج سے آزاد ہوئے راہل

نیرجا چوہدری کا خیال ہے کہ راہل اپنی ’پپو‘ والی امیج سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اپنے انتخابی دوروں کا ذکر کرتے ہوئے نیرجا بتاتی ہیں کہ ’اب انہیں سیاسی جلسوں میں کوئی پپو نہیں کہتا۔ لوگ انہیں ایک سنجیدہ کھلاڑی سمجھنے لگے ہیں۔ برانڈ راہل کے طور پر یہ ان کی بہت بڑی جیت ہے۔‘

راہل گاندھی

راہل گاندھی

کانگریس کے صدر دفتر میں پریس کانفرینس کا ذکر کرتے ہوئے ہریش بجور نے کہا کہ ’شکست کو وقار کے ساتھ تو قبول کیا جاتا ہے، لیکن فتح کو وقار کے ساتھ کیسے قبول کرتے ہیں، یہ راہل گاندھی نے صاف دکھا دیا ہے۔ ان میں کسی طرح کی اکڑ نہیں تھی اور پختگی صاٖف نظر آ رہی تھی۔‘

نیرجا چوہدری کے مطابق جس طرح راہل گاندھی نے میڈیا کے سوالات کے جواب دیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہل اب ایک منجھے ہوئے رہنما بن گئے ہیں۔ مودی کی طرح حزب اختلاف کو رد کرنے کی غلطی راہل نے نہیں کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ راہل صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی غلطیوں سے بھی سیکھ رہے ہیں۔ اور اصل برانڈ کی شناخت بھی اسی بات سے ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp