پی ٹی ایم کے جلسے کی کوریج پر دو قبائلی صحافیوں کے خلاف مقدمہ


پشتون تحفظ موومنٹ

پشتون تحفظ موومنٹ نے چند دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے کارکنوں کے رہائی کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کی طرف سے دو قبائلی صحافیوں کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک احتجاجی جلسے میں ’شرکت‘ کرنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

ڈیرہ اسمعیل خان کے تھانہ سٹی میں درج ایف آئی آر میں سیلاب محسود اور ظفر وزیر کو بحثیت ملزمان نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ دونوں صحافیوں نے پی ٹی ایم کے احتجاج میں شرکت کی، جہاں پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے تھے۔

پی ٹی ایم کی جانب سے اپنے کارکنوں کے رہائی کے لیے چند دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے ترجمان وحید نے دعویٰ کیا کہ سیلاب محسود اور ظفر وزیر بھی پی ٹی ایم کے ساتھ ان کے احتجاج میں شامل تھے اور انھوں نے سکیورٹی اداروں کے خلاف نعرہ بازی کی، جس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

منظور پشتین کون ہے؟

’منظور پشتین ہمارا اپنا بچہ ہے، ہم انھیں سنیں گے‘

کیا فوج اور پشتین ایک پیج پر نہیں؟

سیلاب محسود

Sailaab Mehsud
سیلاب محسود کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کے احتجاج میں شریک نہیں تھے، بلکہ اس احتجاج کی کوریج کے لیے گئے تھے

تاہم ایف آئی آر میں نامزد سینیئر صحافی اور ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے بانی رہنما سیلاب محسود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کے احتجاج میں شریک نہیں تھے، بلکہ اس احتجاج کی کوریج کے لیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم دونوں اس مقدمے کو نہیں مانتے اور نہ کبھی اس میں ضمانت کرائیں گے۔ ہم نے کبھی پاکستان یا فوج کے خلاف نعرے لگائے اور نہ کبھی ایسا سوچا ہے۔’

ایف آئی آر میں صحافیوں سمیت تقریباً 20 قریب افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔

کچھ عرصے سے یہ تاثر ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے کوریج رکی ہوئی ہے۔ پی ٹی ایم کے بیشتر جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے لیے پارٹی ارکان سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صحافیوں کے خلاف پی ٹی ایم کے جلسوں کی کوریج کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہو۔

پی ٹی ایم پر شروع سے ہی ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’فوج مخالف نعروں کے باوجود جنرل باجوہ مثبت تھے‘

’اس نہج پر نہ جائیں کہ ریاست زور لگا کر صورتحال قابو کرے‘

’پشتون تحریک کو دشمن قوتیں استعمال کر رہی ہیں‘

سوال یہ ہے کہ پشتون تحفط موومنٹ کی میڈیا کوریج پر پابندی کیوں ہے؟ پی ٹی ایم کالعدم تنظیم تو نہیں، پھر مقامی میڈیا کی جانب سے اتنی خاموشی کیوں ہے؟

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کے مطابق بظاہر لگتا ہے کہ پی ٹی ایم کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں میں کافی ابہام اور تضاد پایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘پی ٹی ایم تو اب اسمبلی میں بھی پہنچ چکی ہے، ان کے دو رہنما قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ پی ٹی ایم سے سیاسی اختلاف کیا جاسکتا ہے، ان کے رائے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، لیکن انھیں آئین پاکستان کے مطابق جلسہ یا جلوس کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔’

پشتون تحفظ موومنٹ

انھوں نے کہا جب تک پی ٹی ایم کالعدم نہیں قرار دی جاتی، اس وقت تک انھیں قانون کے مطابق جمہوری طریقے سے احتجاج کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور ایسے احتجاج کی کوریج کرنا ہر صحافی کا قانونی حق بنتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر غیر اعلانیہ طور پر سنسرشپ ہو رہی ہے، جس کے تحت پی ٹی ایم کی کوریج کو بھی روکا جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp