جب بادشاہ کا سر مانگا جاتا ہے۔۔۔


ایک فرانسیسی مبصر کے مطابق ’فرانس اس وقت آتش فشاں کے دہانے پر محو رقص ہے‘ ۔ یہ تبصرہ صدر ایمونئیل میکرون کی کل شام تقریر سے پہلے کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد مظاہروں اور عوامی احتجاج کے تسلسل سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرانس کا یہ بحران ختم ہونے کا فوری امکان نہیں ہے۔ یہ بحران اب محض ٹیکس میں اضافہ یا آمدنی میں کمی کے خلاف احتجاج تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فرانس کے نظام اور اشرافیہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔

 صدر میکرون اپنی تقریر میں عوام کی اس مایوسی کو سمجھنے کا تاثر دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی لئے فرانسیسی معیار سے قابل ذکر معاشی مراعات کے اعلان کے بعد بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ویک اینڈ پر زیادہ شدید مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ حکومت نے 90 ہزار سے زائد پولیس اور سیکورٹی فورسز کو صورت حال پر قابو پانے پر مامور کیا ہے۔ اس وقت تک تقریباً چار ہفتے پرانی اس تحریک میں جسے ’ ییلو ویسٹ‘ کا نام دیا گیا ہے ، تین افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جن میں درجنوں سیکورٹی فورسز کے ارکان بھی شامل ہیں۔ صرف ہفتہ گزشتہ کو ہونے والے مظاہروں میں110 افراد زخمی ہوئے اور پولیس نے 224 افراد کو گرفتار کیا۔

صدر ایمونئیل میکرون گزشتہ برس مئی میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی نیشنل فرنٹ کی لیڈر میرین لے پن کو شکست دے کر ایک نئی امید کے نام پر فرانس کے صدر بنے تھے۔ لیکن ڈیڑھ برس کی قلیل مدت میں ہی ان کی مقبولیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے اور اب پیلی ویسٹ پہنے مظاہرین ان کے اقتدار کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عوام کی ناراضگی کا سبب صرف صدر میکرون کے پیدا کردہ مسائل نہیں ہوسکتے لیکن ان کے طریقہ گفتار اور عملی پالیسیوں کی وجہ سے فرانسیسی معاشرہ میں طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہؤا ہے اور عام شہری یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ میکرون اشرافیہ کے صدر ہیں۔ صدر میکرون ماحولیاتی پالیسیاں نافذ کرتے ہوئے ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی حکمت عملی پر گامزن ہیں جبکہ وہ ملک میں معاشی تیزی پیدا کرنے اور قومی پیداوار میں سرمایہ داروں کی دلچسپی میں اضافہ کے لئے ٹیکس کا جو نظام متعارف کروا رہے ہیں اس سے عام لوگوں کو تنگ دستی سے غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس وقت نچلے طبقے کے علاوہ نچلے متوسط اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ اور سماجی سہولتوں میں کمی کی وجہ سے عام لوگوں کے گھر کا بجٹ بری طرح متاثر ہؤا ہے۔ ملک کی ساڑھے چھے کروڑ آبادی کی اکثریت کو شدید مالی مسائل کا سامنا ہے۔ سماجی سہولتیں کم ہونے کی وجہ سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اخراجات اور تعلیمی اداروں کی فیسیں بڑھنے کی وجہ سے طالب علموں کو ایک نئی مایوس کن صورت حال کا سامنا ہے۔ اس مشکل اور مایوسی کا اظہار 17 نومبر سے شروع ہونے والی ’ییلو ویسٹ‘ تحریک کے دوران دیکھنے میں آرہا ہے۔

’ییلو ویسٹ‘ تحریک کا آغاز انتہائی غیر ڈرامائی انداز میں سوشل میڈیا پر ایک 36سالہ موٹر میکینک کی ایک ویڈیو کو مقبولیت ملنے سے ہؤا تھا۔ اس ویڈیو کو اب تک ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس میں گشلین کونٹارد نامی شخص نے یکم جنوری سے ڈیزل پر ٹیکس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرنے کی بات کی تھی۔ اس ویڈیو پیغام کے عام ہونے پر ملک بھر میں احتجاج منظم ہونے لگے۔ اس حوالے سے مواصلت بھی فیس بک کے ذریعے کی گئی ۔ متعدد گروپوں نے ایک دوسرے سے رابطہ کرکے احتجاج کی جگہ اور طریقہ کا تعین کیا۔ اسی مواصلت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ احتجاج کرنے والے ، کاروں میں لازمی طور سے رکھی جانے والی پیلے رنگ کی ویسٹ پہن کر باہر نکلیں گے۔ اسی مناسبت سے اس تحریک یا احتجاج کا نام ’ییلو ویسٹ‘ پڑ گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس تحریک کا کوئی ایک رہنما نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک خاص سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے ٹریڈ یونینز کی براہ راست حمایت بھی حاصل نہیں ہے بلکہ اس احتجاج میں شامل ہونے والے لوگوں کا تعلق ہر شعبہ زندگی اور ہر سماجی گروہ سے ہے۔ اگرچہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سیاسی لیڈر اور ٹریڈ یونینز بھی اب اس کی حمایت کرنے کا اعلان کررہی ہیں لیکن ابھی تک یہ تحریک کسی ایک لیڈرکے بغیر منظم ہورہی ہے۔ اسی لئے واضح طور سے یہ کہنا مشکل ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے کیا مطالبے ہیں اور کس طرح انہیں ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔

تاہم اس احتجاج کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ملک کے 80 فیصد لوگ اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ کل صدر میکرون نے اپنی نصف گھنٹے کی ریکارڈ شدہ تقریر میں اوسط آمدنی والے طبقہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس تحریک کا زور توڑنے کی کوشش کی ہے لیکن بظاہر وہ اس میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے یکم جنوری سے کم از کم تنخواہ میں 100 یورو اضافہ کا اعلان کرکے ملکی بجٹ کے خسارہ میں اضافہ کی راہ ہموار کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2000 یورو ماہانہ تک پنشن پانے والوں کے لئے یکم جنوری سے عائد ہونے والے ٹیکس کو بھی واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم ایڈورڈ فلیپے ڈیزل پر عائد کئے جانا والا نیا ٹیکس واپس لینے کا اعلان کرچکے تھے۔ اس کے باوجود صدر کی تقریر کے فوری بعد لئے جانے والے ایک سروے میں 64 فیصد لوگ احتجاج کی حمایت کررہے تھے۔ مظاہرین کی طرف سے نئے احتجاج کی اپیل سامنے آنے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں ممکنہ جانی و مالی نقصان کی صورت میں اس حمایت میں اضافہ کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

یورپ میں ٹیکس شرح کے حوالے سے فرانس کا دوسرا نمبر ہے۔ تاہم صدر میکرون نے نئے مالی بجٹ میں ٹیکس کی انتہائی شرح کو 48 فیصد سے کم کرکے 44 کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن عام شہری محسوس کرتا ہے کہ اس کٹوتی کا فائدہ امیر ترین لوگوں کو دیا جارہا ہے۔ صدر میکرون کی حکمت عملی کے تحت دولت مندوں پر ٹیکس میں کمی کے ذریعے معاشی احیا کا منصوبہ بنایا گیا ہے جبکہ اخراجات کم کرنے کے لئے عام لوگوں کو ملنے والی سماجی سہولتوں میں کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی بہتری کے نام پر جو ٹیکس عائد کئے گئے ہیں ، ان سے بھی عام شہری ہی متاثر ہوگا۔ ملک میں نہ صرف شہروں اور دیہات میں رہنے والوں کے معیار زندگی میں فرق واضح ہورہا ہے بلکہ شہری آبادیوں میں بھی طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہؤا ہے۔ گزشتہ برس فرانس کے شہریوں نے ملک کی اسٹبلشمنٹ اور اشرافیہ کا اثر کم کرنے اور سنٹر کی متوازن سیاست کے نام پر سامنے آنے والے نوجوان ایمونئیل میکرون کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا تھا۔ لیکن یہ خواب تھوڑے ہی عرصہ میں ہوا ہو چکا ہے۔

فرانس میں ہونے والے مظاہروں اور بے چینی سے یورپ بھر میں طبقاتی تقسیم کی بحث کا آغاز ہؤا ہے۔ یہ اندیشہ موجود ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی عوام فرانس کے لوگوں سے تحریک پاکر احتجاج کا سلسلسہ شروع کرسکتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف فرانس یا یورپ کے معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ دنیا بھر میں عوام میں امیر اور غریب کا فرق بڑھنے کے علاوہ غریب اور امیر ملکوں کے معاشی اور سماجی حالات میں بھی نمایاں فرق دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غریب ملکوں میں امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کے مفادات کے لئے لڑی جانے والی جنگیں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ غریب ملکوں پر قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جس کا بوجھ بہر حال عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے عام لوگوں کے معاشی حالات دگرگوں ہوتے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لئے جنگ زدہ علاقوں کے علاوہ دیگر غریب ملکوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ یورپ ،امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرف کوچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ نے اس قسم کے ترک وطن کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے ہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ بھی اینٹی امیگریشن نعرے بازی اور اقدامات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔

صدر میکرون نے کل کی جانے والی تقریر میں فرانس میں امیگریشن کو کنٹرول کرنے کی بات کرکے طبقاتی تقسیم سے نابلد ہونے کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جیسے دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگ ہی فرانس کے شہریوں کی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کا یہ تیر بھی نشانے پر نہیں بیٹھا۔ ملک کی ٹریڈ یونینز کے نمائیندوں نے اسے خطرناک سیاسی نعرے بازی قرار دیا ہے۔ ’ییلو ویسٹ‘ احتجاج کی مقبولیت اور صدر میکرون کی بدحواسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرانس کی دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی لیڈر اس صورت حال کو اپنی مقبولیت میں اضافہ کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ملک میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے جو اپنے طور پر ایک سنگین مسئلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

فرانس کے مظاہرین نے ایک ایسا بینر بھی اٹھایا ہؤا تھا جس پر لکھا تھا ’بادشاہ کا سر چاہئے‘ ۔ فرانس کے رہنماؤں کے علاوہ دنیا بھر کے لیڈروں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام کس مجبوری میں بادشاہ کو تختہ دار پر چڑھانے کی بات کرنے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali