آلو کی فصل


کْچھ روز قبل گھر سے پیدل چلتے چلتے سوسائیٹی سے باہر ایک قریبی زرعی رقبے میں جا پہنچا وہاں ایک بزرگ شجر کاری میں مصروف تھے میں بھی پاس جا کر رُک گیا اور پودے کی نسل، افزائش، پھل اور فوائدکے بارے میں سوالات کرنے لگا اور ساتھ ساتھ اس قومی فریضے میں ہاتھ بھی بٹانے لگا کُچھ دیر کے بعد اس کام سے فارغ ہو کر بُزرگ نے چائے کی دعوت دی اور اپنے ساتھ قریب ہی واقع ڈیرے پر لے گئے۔ چارپائی پر بیٹھ کر گڑ والی چائے کی چسکیاں لیتے گُفتگو شُروع ہوئی تو اُن بزرگ نے اپنی تجرباتی دانش کے موتی بکھیرتے بکھیرتے گُفتگو آج کے سیاسی ماحول پر لے آئے تو مجھ جیسے غیر عمرانی نوجوان نے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوری چارج شیٹ سُنا دی اور ستر سالوں کا سارا ملبہ آمریت اور اُس کے حواریوں پر ڈال دیا۔

بُزرگ نے بُہت تحمل سے میری ساری نفرت بھری گُفتگو سُنی اور مُسکرا دیے پھر دھیرے سے چائے کی چُسکی لی اور اپنی بات کا آغاز کیا اور کہا کے بیٹا تمھاری شکائتیں درست اور تمھارے ریاستی اداروں سے گلے بجا ہیں مگر میں تمہیں ایک بات سمجھاتا ہوں اور سامنے لگے آم کے درخت کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کے ریاست بھی بالکل اس درخت کی مانند ہے۔ جس طرح اس درخت کے تین بُنیادی جُز ہیں اول اس کی جڑیں دوم اس کا تنا اور سوئم اس کی شاخیں جب یہ تینوں جُز اپنی بھرپور حالت میں ہوں اور اپنے اپنے ذمہ کام یعنی جڑ صحیح سے نمکیات اور پانی تنے اور شاخوں تک پہنچا رہی ہوں، تنے میں مضبوطی اور لچک اس قدر متناسب ہوکے وہ درخت کو کسی بھی حالت میں نہ ٹوٹنے دے نہ بکھرنے دے اور شاخیں اپنے آپ کو اس طرح پھیلائیں کے زیادہ سے زیادہ چھاوں مُیسر کر سکیں اور پھل کے بور کو سہارا دے سکیں۔

جب یہ تینوں جُز اپنا پنا کام بہترین انداز میں سر انجام دیتے ہیں تو ایک رس بھرا شیریں آم کا پھل مُیسر آتا ہے۔ بالکُل اسی طریقے سے ریاست کے بھی تین بنیادی جُز ہیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، اب میڈیا بھی اپنے آپ کو چوتھا جُز کہتا ہے مگر اُس کا کردار اُس مالی کا ہے جو درخت پر نظر رکھتا ہے اور اُس میں آنے والی کسی بھی خرابی پر نظر رکھتا ہے۔

یہاں پر بزرگ نے توقف کیا اور میرا دھیان ٹھنڈی ہوتی چائے کی طرف مبذول کروا کر پھر گُفتگو شروع کی، ہاں تو میں سمجھا رہا تھا کے ریاست کے پودے میں جڑ مُقننہ ہے جس کا کام اہم اور بنیادی اہمیت کی حامل قانون سازی کرنا ہے یہی ریاست کے معاملات لیے نمکیات اور پانی کا کام دیتی ہیں اور اسی طرح انتظامیہ جس کے اندر سول بیوروکریسی، پولیس اور دیگر دفاعی ادارے شامل ہیں ریاست کے درخت میں تنے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا کام ریاست کی حفاظت اور آئین کے تحت مُلک میں استحکام کو قائم رکھنا ہے، اور عدالتیں اس درخت کی شاخیں ہیں جن کا کام لوگوں کو انصاف کی چھاؤں دینا ہے اور جب یہ ریاست کے تینوں جُز اپنا اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہوں تو پھر عوام کو ترقی، خوشحالی اور امن و سلامتی کا بُہت ہی شیریں پھل نصیب ہوتا ہے۔

مُجھے بزرگ کی مثال دل کو لگی تو میں اُن کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا اور ساتھ ہی پوچھ ڈالا کہ آپ نے بہترین ریاست کے عوامل تو بتا دیے تو اب یہ بھی بتا دیں کے پچھلے ستر سالوں سے ہم عوام یہ رس بھرا پھل کھا نے سے محروم کیوں ہیں؟ اس کے جواب میں بُزرگ پھر مُسکرائے اور کہنے لگے تمہیں میرا جواب پسند نہیں آئے گا مگر حقیقت یہی ہے کے ہمارے آم کے درخت کی جڑیں بانجھ ہیں، ہمارے سیاستدان ناکارہ اور کم فہم ہیں اگر اُن میں ذرا سی رمق ہوتی تو ہم بھی پھلدار ہوتے ہمارا تنا اور شاخیں جتنی بھی کوشش کرلیں مگر پھل نہیں دے سکتیں کیوں کہ ہماری جڑوں میں بیماری ہے۔

بُزرگ کی بات سُن کر میں خاموش ہو گیا اور اجازت لے کر گھر کی طرف چل پڑا اور سوچنے لگا دس سالوں سے جو میں نے نظریات اپنائے کہ اداروں نے کبھی سیاستدانوں کو کام کرنے ہی نہیں دیا یا بار بار مارشل لاء لگا کر جمہوریت کا راستہ روکتے رہے اور ان سب اقدامات سے مُلک کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے کس قدر جلدی اور کاشت کاری کرنے والے انسان کی سادہ سی مثال سے ڈھتے چلے جا رہے ہیں یہی سوچتے سوچتے تقریباً دس منٹ کے پیدل سفر میں گھر کے دروازے پر پہنچ گیا تو ایک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں اُلٹے پاؤں دوڑ پڑا ہانپتا ہوا بُزرگ کے پاس پُہنچا تو وہ مُجھے اس حالت میں دیکھ تھوڑا پریشان سے ہوگئے اور پوچھا خیریت کیا بات ہے بیٹا؟

اس پر میں نے تھوڑا سا سانس دُرست کیا اور کہا کے آپ کو ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔
اب کی بار بُزرگ نے نہایت حیرانگی سے پوچھا کون سی بات؟
اب کی بار میں نے مُسکرا کر جواب دیا، ”یہی کہ ہم نے تو آم کی بجائے آلو کی فصل لگا رکھی ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).