جب کینیڈی نے پنڈت نہرو کے بازو مروڑے


گزشتہ دنوں ان ہی سطور میں یہ عرض کیا تھا کہ سن انیس سو باسٹھ کی بھارت چین جنگ کے بطن سے جنم لینے والے حالات و واقعات نے صدر ایوب اور دیگر پالیسی سازوں کو پریشان کر دیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرنے کے لیے آج تک ان لوگوں نے جو محنت کی تھی، وہ رائگاں جاتی نظر آ رہی تھی۔ ان کو اپنی بر سہا برس کی بنائی ہوئی پالیسی بے کار ہوتی نظر آ رہی تھی۔ امریکہ سے وابستہ ان کی توقعات ایک ایک کر کہ دم توڑ رہی تھیں۔

چین بھارت جنگ کے دوران نہ صرف امریکا نے بھارت کو بہت بڑی تعداد میں فوجی امداد فراہم کی تھی، بلکہ پاکستان کو بھی واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ وہ بھارت اور چین کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر کشمیر میں کوئی کارروائی کرنے کی کوشش نہ کرے، اور امریکہ ایسی کسی کوشش کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی، جس نے صدر ایوب اور دیگر پالیسی سازوں کو پاکستان کے مغربی اتحادوں کے اندر رہنے کے فائدے نقصانات پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

حالاں کہ امریکہ کی طرف سے یہ طرز عمل کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پاکستان کے کئی دانشور ارباب اختیار کو تسلسل سے ان اتحادوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ اس حقیقت کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ مغربی سرپرستی میں فوجی اتحاد صرف اور صرف سرد جنگ کے تناظر میں سویت یونین کا مقابلہ کرنے اور سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے تشکیل دیے گئے ہیں، اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی ان اتحادوں میں شمولیت اس سرد جنگ میں دو سپر پاورز کے درمیان ایندھن بننے کے عمل سے زیادہ نہیں ہے۔

اور پاکستان کا مفاد اس بات میں نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی ایجنڈے کے مطابق سوشلزم کے خلاف فرنٹ لائن ریاست بنے۔ اس کے بر عکس اسے چاہیے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی تعلقات میں توازن پیدا کرے، اور ایسی پر امن پالیسیاں اختیار کرے، جو ملک کی پسماندگی دور کرنے اور اس کی معاشی و سماجی ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔ لیکن بد قسمتی سے اس وقت کے ارباب اختیار داخلی اور عالمی سطح پر عدم تحفظ اور خوف کا شکار تھے، جس کے نتیجے میں وہ امریکہ کے ساتھ ہر اس فوجی معاہدے اور اتحاد میں شمولیت کے لیے بے تاب رہتے تھے، جس سے ان کا عدم تحفظ کا احساس کم ہو سکے۔

حالاں کہ یہ بات بھی ان پر عیاں تھی، اور خود امریکی بار بار اس کی وضاحت بھی کر چکے تھے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی اور مالی امداد صرف سویت بلاک کے خلاف اور سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے ہے، اور یہ امداد کسی صورت میں بھارت کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتی، اور اگر ایسا کیا گیا تو امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ باسٹھ کی چین بھارت جنگ کے دوران جان ایف کینیڈی کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ پاکستان کو کس طرح اس جنگ سے باہر رکھا جائے۔ دوسری طرف صدر ایوب کو بھی امریکی مجبوری اور خطے کی صورتحال کی نزاکت کا پورا ادراک تھا۔

صدر ایوب نے کینیڈی پر واضح کیا کہ چین بھارت لڑائی کے دوران پاکستان کی طرف سے صورتحال سے فائدہ نہ اٹھانا ایک قربانی ہے، جس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چنانچہ کینیڈی نے ایوب خان سے وعدہ کیا کہ وہ جنگ کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو سکتا ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دوطرفہ مذاکرات کا بندو بست کریں گے۔ چنانچہ آگے چل کر صدر کینیڈی کی کوششوں اور کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ”میراتھن مذاکرات “ کا آغاز ہوا۔

انیس سو باسٹھ تریسٹھ میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے مسلسل چھ دور چلے۔ ان مذاکرات کے دوران صدر کینیڈی کی ہدایات کے مطابق پاکستان اور بھارت میں امریکی سفارتکار مقامی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، اور مذاکرات کی لحمہ بہ لحمہ خبریں واشنگٹن پہنچاتے رہے۔ اس دوران وہ مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے اختلافات کے حل کے لئے لیے مختلف فارمولوں پر غور کرتے رہے۔ حالاں یہ امریکی سفارت کار ان مذاکرات کے ممکنہ نتائج سے کافی حد تک آگاہ تھے۔

مذاکرات سے قبل نیو دہلی میں مقیم امریکی سفیر گلبریتھ نے اپنے خط میں صدر کینیڈی کو بڑی تفصیل کے ساتھ مسئلہ کے پس منظر اور اس کے ممکنہ حل کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے صدر کو لکھا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کے علاقائی حل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تاہم وہ ہندوستانی ریاست کے اندر رہ کر کشمیری مسلمانوں کو ثقافتی خود مختاری دے سکتے ہیں۔ وہ ایک اس طرح کے بندوبست پر راضی ہو سکتے ہیں، جو جرمنی کا اپنے علاقے سار کے ساتھ ہے، جو کہ بنیادی طور پر جرمنی کا حصہ ہے، لیکن یہاں پر عام طور پر فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے، اور فرانسیسی ثقافت عام ہے۔

گلبریتھ نے صدر کینیڈی کو یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں بہت زیادہ سفارتی دباؤ بھی مناسب نہیں ہے، کیوں کہ اس کے منفی اثرات پڑھ سکتے ہیں، اور بھارت میں میں امریکہ کا وہ امیج خراب ہو سکتا ہے، جو اس نے چین کے خلاف جنگ میں بھارت کی مدد کر کے بنایا ہے۔ ان مایوس کن مشوروں کے باوجود صدر کینیڈی کا جوش و خروش برقرار رہا۔ انہوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر کے مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حال تلاش کرنے میں پر امیدی کا اظہار کیا۔

کینیڈی کے دباؤ کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں نے صدر ایوب خان اور وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے گھروں تک کے چکر لگانا شروع کر دیے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں کینیڈی نے برطانیہ کی مدد سے پنڈت جواہر لال نہرو کے بازوں مروڑ کر ان کو مذاکرات پر آمادہ کیا، جس کے نتیجے میں آخر کار 27 دسمبر 1962 کو راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوا۔ لیکن مذاکرات یہ پہلا دور اپنے دامن میں بڑی حیرتیں سمیٹے ہوئے تھا۔

بہت سارے لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کیوں نہیں ہوئے۔ مذاکرات کے لیے آنے والا بھارتی وفد راولپنڈی کے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کو جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تو ریڈیو پاکستان سے خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ ان خبروں میں بتایا گیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک بارڈر سمجھوتے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے خوشی کا اظہار کیا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

اس سمجھوتے کے تحت پاکستان کو تقریباً دو ہزار کلومیٹر کا علاقہ مل گیا ہے، اور بدلے میں چین کو کشمیر کے کچھ علاقوں کا کنٹرول دے دیا گیا ہے۔ اس سمجھوتے کے بعد پاکستان اور چین اس علاقے میں میں انفراسٹرکچر قائم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں، جس میں شاہراہ قراقرم شامل ہے، جو دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑنے میں مدد دے گی۔ اس اعلان پر بھارت کے وفد نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر کے مستقبل پر بات کرنے کے لیے مذاکرات کا میز سجا رہا ہے، اور دوسری طرف اس نے چین کے ساتھ ایسے علاقوں پر سمجھوتا کیا ہے، جن میں سابق ریاست جموں کشمیر کے علاقے شامل ہیں۔ وفد کے کچھ اراکین نے زور دیا کے اب مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور وفد کو اگلی صبح واپس بھارت لوٹ جانا چاہیے۔ آگے حالات نے کیا رخ اختیار کیا؟ اس کا احوال آئندہ پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments