یمن کی بندرگاہ حدیدہ پر جنگ بندی کیلئے معاہدہ طے پاگیا


Houthi delegate Abdelqader Mourtada (L) and government delegate Brigadier General Asker Zaeel shake hands at the negotiating table in Stockholm, 13 December

بائیں جانب حوثیوں کے نمائیندے جبکہ دائیں جانب یمنی حکومت کے نمائیندے سٹاک ہوم میں جنگ بندی کے معاہدہے کے بعد مصافحہ کر رہے ہیں۔

سویڈن میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں یمن کے متحارب گروہوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کیلئے ایک بڑی کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں یمن کی حکومت اور حوثی مخالفین کے درمیان حدیدہ میں جنگ بند کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گُتریس نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ یہ معاہدہ یمن میں چار برس سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کا آغاز ہو گا۔

اس خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کی وجہ سے یمن میں بچوں سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک میں اس دور کا بد ترین انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔

یمن میں سعودی اتحادی افواج کا حدیدہ بندرگاہ پر یلغار

’یمن میں بچوں کی ہلاکت کی تحقیقات ہوں گی‘

’یمن کی بیوقوفانہ جنگ سعودی عرب کے فائدے میں نہیں‘

سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمن کی موجودہ حکومت کے نمایندے اور اس کے حوثی مخالفین جن کا ملک کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول ہے، کے نمایندوں نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔

جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کیسے ہوگا

یمن حکومت کی افواج اور ان کے مخالف حوثیوں کی میلیشیا کے نمایندے دونوں ہی حدیدہ شہر سے چند دنوں میں دستربردار ہو جائیں گے اور ان کی جگہ شہر کا کنٹرول، بقول اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گُنتریس کے، مقامی فورس سنبھال لیں گی۔

سیکریٹری جنرل گُتریس نے کہا کہ اس کے بعد اس جنگ بندی کا اطلاق پورے حدیدہ صوبے پر ہوگا۔

یمن

اس جنگ کی وجہ لاکھوں افراد غذائیت کی کمی اور ادویات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکت کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔

حدیدہ شہر پر قبضے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ریاستوں کے اتحاد نے کئی مہینوں سے چڑھائی کی ہوئی ہے لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

حدیدہ پر قبضے کیلئے جنگ کی وجہ سے یہ بندرگاہ عملی طور پر بند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے حوثیوں کے زیرِ قبضہ یمن کے شمالی علاقوں میں امدادی سامان پہنچ نہیں پا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ اس جنگ بندی کے بعد بحیرہ احمر کی اس اہم بندرگاہ میں حالات کا جائزہ لے گا اور امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم میں مقامی انتظامیہ کی مدد کرے گا۔

اینٹونیو گُتریس کے مطابق جنگ بندی کے اس معاہدہے سے یمن میں امن بحال کرنے کا اور انسانی امداد تقسیم کرنے کا آغاز ہوسکتا ہے۔

مزید کیا بتیں طے پائیں

اس کے علاوہ یمن کے تیسرے بڑی شہر تعز میں جہاں شدید خانہ جنگی چلتی رہی ہے، وہاں بھی کچھ اہم اعلانات ہوئے ہیں لیکن ان کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔

A photo taken on March 18, 2018, shows a Yemeni child looking out at buildings that were damaged in an air strike in the southern Yemeni city of Taez

یمن کی حالیہ جنگ نے بچوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

اب تک دارالحکومت صنعا سمیت پورے یمن کیلئے جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔ صنعا اس وقت حوثیوں کے قبضے میں ہے۔

مسٹر گُتریس نے کہا کہ وہ صنعا کے ہوائی اڈے کو اگلے ہفتے میں کھولے جانے کے معاہدے کے بارے میں بھی پر امید ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یمن میں مزید بہتری کیلئے متحاربین کے درمیان دیگر معاملات پر مذاکرات کا اگلا دور جنوری میں ہوگا۔

سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں یمنی حکومت اور اس کے مخالف حوثیوں کے درمیان ہونے والے یہ مذاکرات دو برس کے بعد پہلے مذاکرات تھے۔ یمن کی حکومت کو سن 2015 سے سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

یمن میں جنگ کیوں ہے لڑی جا رہی ہے۔

یمن میں حالات سن 2015 سے بدتر ہوتے گئے تھے جب حوثیوں نے یمن کے صدر عبد ربو منصور ہادی کی فوجوں کو شکست دے کر ملک کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ صدر منصور ہادی کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔

یمن میں ’غذائی قلت سے 85000 بچے ہلاک‘

’یمن میں ایرانی ہتھیار موجود نہیں، الزامات بے بنیاد ہیں‘

خوراک کی کثرت مگر یمن قحط کے دہانے پر کیوں؟

حوثیوں کے بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے، جسے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں نے ایران کا خطے میں نائب تصور کیا، فوری طور پر یمن میں فوجی مداخلت کرکے صدر منصور ہادی کی حکومت کو بحال کیا۔ لیکن ان کی عملداری ملک کے جنوبی حصے پر ہو سکی۔

اس کے بعد سے منصور ہادی اور حوثیوں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے جس میں سعودی عرب یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر فوجی بمباری کرتا چلا آرہا ہے۔ اس بمباری سے بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔

اب تک اس صرف اس جنگ کی وجہ سے اور سعودی بمباری کی وجہ سے 6,660 شہری ہلاک ہوئے ہجبکہ 10,560 زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دسیوں ہزاروں افراد قحط، غذائیت کی کمی اور بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے ایک مرتبہ پھر خبرادار کیا ہے کہ ہر ہفتے ہیضے کے دس ہزار سے زائد مریض رپورٹ کیے جارہے ہیں۔

Data graphic: Yemen in numbers


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp