کامیابی فروش اسپیکرز اورایک نئی کتاب


\"farhanمیں نے اسکول کے زمانے میں سیلف ہیلپ پر پہلی کتاب ’’زندگی کی شاہراہ پر کامیابی کا سفر‘‘ پڑھی تھی۔ مصنف کا نام شاید محمد بشیر جمعہ تھا۔ کتاب پسند آئی تھی اور میں کئی دن تک کامیاب آدمی بننے کے منصوبے بناتا رہا۔ اس کے بعد صدرکراچی کے ریگل چوک میں اتوار کو لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار سے اس موضوع پر کچھ اردو ترجمے لے کر پڑھے۔ لاہور میں قیام کے دوران ڈیل کارنیگی کی کچھ کتابوں کے اردو ترجمے، پاؤلو کوئیلو کی دو تین کتابیں اور مقامی موٹی ویشنل سپیکرز کی ایک دو اردوکتابیں سرسری سی دیکھی ہیں۔ یہ سب کتابیں دلچسپ بھی لگیں اور سب میں ملی جلی باتیں اور کہانیاں پڑھنے کو ملیں۔

ڈیڑھ برس پہلے پاک ٹی ہاؤ س میں ہر مہینے کے پہلے اتوار کو ہونے والی’’ریڈرز کلب ‘‘ کی میٹنگ میں جانا شروع کیا۔ وہاں ہر ہفتے کوئی ’’کامیاب آدمی‘‘ اپنی کہانی سناتا ہے اور پھر سامعین کے سوالوں کے جوابات دیتا ہے یا کامیابی کے ٹوٹکوں پر مشتمل کسی انگریزی کتاب کا تعارف اور اس سے متعلق سوال وجواب کی نشست ہوتی ہے۔ شروع میں تو یہ تقریریں مجھ پر ایک سحر سا طاری کر دیتی تھیں لیکن جلد ہی ان موٹی ویشنل اسپیکرز کے لیکچرز سے خود کو بیزار سا محسوس کرنے لگا تھا۔ اپنی اس کیفیت کا اظہار اپنے کچھ دوستوں سے بھی کیا تھا۔ دوستوں نے دلائل دیے مگر پھر میرا دل واپس اپنے مقام پر نہیں آیا۔ بُرا ہے اُڑ جائے تو پھر مان کر نہیں دیتا۔ پھر میں دیکھا کہ میرے بعض محترم کالم نگار دوست جو کل تک ان ٹرینرز اور اسپیکرز کو اپنے کالموں میں زور دار الفاظ میں پروموٹ کرتے تھے، ان کے آہنگ میں جذباتیت بھی کچھ کم ہوگئی ہے۔ یہ تبدیلی میرے لیے خوشگوار مشاہدہ تھی۔

دوستو! زندگی دو جمع دو چار نہیں ہوتی۔ اس میں نشیب وفراز ہوتے ہیں۔ ہمیں انہی ناہمواریوں کے ساتھ جینا ہوتا ہے۔ اپنی بات کروں تو میں وقت کی پابندی بھی کرتا ہوں لیکن گھڑی کے سیکنڈوں کا اسیر بن کر رہ جانا مجھے قبول نہیں اس لیے گاہے تاخیر بھی کردیتا ہوں۔ میں نے کئی بار نظام الاوقات بنائے اور پھر ان کو توڑا بھی۔ \"84\"میں اکثر فارمل لباس پہنتا ہوں لیکن کبھی مجھے کھلنڈرا سا نوجوان بننا اچھا لگتا ہے سو لباس میں تر میم کر لیتا ہوں۔ دوستوں اور جاننے والوں کے ساتھ ہمیشہ مصنوعی مثبت رویہ نہیں رکھتا بلکہ لڑ بھی پڑتا ہوں۔ ہاں کے ساتھ ساتھ نہ بھی کرتا ہوں۔ ڈیڈ لائنز کو میٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کبھی سست پڑ جاتا ہوں۔ رات جلدی سونے کا ارادہ کرتا ہوں اور کبھی ایسا کر بھی لیتا ہوں لیکن مجھے دوستوں کے ساتھ کسی ہوٹل یا پارک میں بیٹھ کر پوری رات گپیں ہانکتے ہوئے گزار دینا بھی اچھا لگتا ہے۔ کتابیں پڑھتا ہوں اور مزید بہت سی کتابیں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی دن گزر جاتے ہیں مگر کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتا۔میرے سرہانے کے آس پاس کئی طرح کی کتابیں بکھری پڑی ہیں جو ابھی منتظر ہیں۔ جلدی بیدار ہو جاؤں تو قریبی پارک میں چہل قدمی کرتا ہوں اور خوبصورت صبح کی لطیف و خالص ہوا کا لطف لیتا ہوں۔ کبھی سوتے سوتے دوپہر ہوجاتی ہے زندگی مگر نہیں رکتی۔

لکھتا ہوں۔۔۔ کہ یہ اپنا شوق بھی ہے اور روزی کا وسیلہ بھی لیکن کبھی بہت دن گزر جاتے لیکن قلم نہیں چل پاتا۔ گاہے ایسا لکھتا ہوں کہ خود پڑھ کر بھی اچھا لگتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں اپنی لکھت سے مطئمن نہیں ہو پاتا۔ احباب و اقارب سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اس میں بھی کوئی خاص نظم طے نہیں ہے۔ ناراض بھی ہوتا ہوں اور غصہ بھی۔ ہمیشہ مثبت نہیں سوچتا، منفی بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ کسی نے توہین آمیز سلوک نہ کیا ہو تو اسے معاف بھی کر دیتا ہوں۔ دوستوں اور چاہنے والوں کو منا بھی لیتا ہوں۔ منصوبے بناتا رہتا ہوں کبھی ان کے مطابق کام کرتا ہوں تو کبھی نہیں کر پاتا۔ زندگی کے انہی مد وجزرکے ساتھ میں جیتا ہوں۔

دوستو! میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ کامیابی کی تعریف ہر شخص کی ہاں الگ ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو شخص مارکیٹ میں اپنا دام سب سے زیادہ لگوا لے وہی کامیاب ہے۔ کامیابی پر لکھی گئی کہانیوں میں سے بہت کم ایسی ہوں گی جن میں مبالغہ آرائی نہ ہو۔ ہر شخص کی ترقی اور کامیابی میں اس کے علاقے، ماحول، مواقع اور امکانات کا گہرا دخل ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں قلیل مدت میں زیادہ پیسے بنانے والے شخص کی کہانی کی تعمیم(Generalize)  نہیں کر \"83\"سکتے۔ وہ کہانی شاید ہی تیسری دنیا میں چل سکے۔ چل سکنے سے میری مراد اس کی عملی تطبیق ہے۔ اسی طرح کوئی بھی شخص ہر وقت مثبت نہیں سوچ سکتا۔ یہ فطری طور پر ناممکن ہے۔ انسان پُر امید بھی ہوتا ہے اور مایوس بھی۔ وہ غلطیاں بھی کرتا ہے اور بار بار انہیں ٹھیک کرنے کی سعی بھی کرتا ہے۔ محنت ہر وقت کامیابی کی کلید نہیں بنتی بلکہ سمارٹ قسم کی محنت آپ کی خواہشات کی کسی حد تک تکمیل کا سامان کرتی ہے۔ اس لیے ایسی کتابیں پڑھ کر ذہنی مریض بن جانا کوئی عقلمندی نہیں، بس ایسے جینا چاہئے جیسے نارمل قسم کے لوگ جیتے ہیں۔

اس کا قطعی یہ مطلب نہیں‌ کہ ہمیں‌ایسی کتابیں یا ایسی فلمیں نہیں‌ دیکھنی چاہئیں‌۔ اگر آپ کسی موٹی ویشنل سپیکر کی سحر انگیز تقریر سن کرآپ خود میں دس فی صد بھی بہتری لا سکتے ہیں ‌تو ضرور سنیے۔ میرا مدعا فقط اتنا ہے کہ ہمیں‌ \’\’پیسیو\’\’ قسم کی آڈئینس بننے کی بجائے \’\’ایکٹیو\’\’ آڈئینس کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ چیزوں کو قبول کے ساتھ ساتھ ان کا تنقیدی جائزہ بھی لینا چاہیے۔

’’کامیابی کا مغالطہ ‘‘ ایک اچھی کتاب ہے۔ مصنف عاطف حسین نے اس کتاب میں موٹی ویشنل اسپیکرز کے مقابل نقطۂ نظر کے ابلاغ کی کوشش کی ہے۔ اردو زبان میں (کم از کم میری معلومات کے مطابق)یہ پہلی باقاعدہ کوشش ہے اس لیے اسے سراہنا چاہئے۔ اس کتاب میں کہیں کہیں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف غصے میں ہے اور بعض پیرا گراف پڑھ کر آپ کی ہنسی بھی چھوٹ سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس کتاب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ ضخیم نہیں اس لیے ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکتی ہے۔ ایمل پپلیکیشز اسلام آباد نے عمدگی کے ساتھ اسے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments