چھوٹا بچہ اور پٹھان معما


میری بیوی نے گاڑی رکوا کر ہی دم لیا، اس دن بھی وہ بندر روڈ پر صابری نہاری کے سامنے فٹ پاتھ پر بہت سارے بچوں کے ساتھ بیٹھا نہاری روٹی کھارہا تھا۔ سرخ و سفید رنگ کے بہت سارے افغانی بچّے ایک لائن میں فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے اورباری آنے پر انہیں نہاری روٹی ملتی تھی۔ خدا ترس لوگ صدقہ، خیرات کرنے آتے اور صابری ریسٹورانٹ کے کاؤنٹر پر پیسے دے کر چلے جاتے۔ ایک بندے کا کھانا، سو بندوں کا کھانا۔ کھانا ہر وقت تیار تھا اور کھانے والے بھی بے شمار بیٹھے ہوتے تھے۔ یہ نظام آہستہ آہستہ ایک طرح سے بن گیا تھا۔

شہر میں جہاں جہاں کھانے پینے کی جگہیں تھیں، وہاں وہاں اس قسم کا نظام چل نکلا تھا۔ غریب بھکاری، بے گھر، فاقہ زدہ، کھانے سے محروم بوڑھے پھٹے کپڑوں میں ملبوس بھکارنیں سفید اورکالے برقعوں میں ملفوف عزّت دار گھرانوں کی عورتیں بھی یہاں سے کھانا جمع کرکے اپنے گھروں میں موجود پیٹ کے جہنم کے لیے اس ایندھن کو لے جاتی تھیں۔ بڑی بڑی عمارتوں، اونچے اونچے ایوانوں اور ان میں رہنے والے عظیم سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، سماج کے ٹھیکیداروں کو یہ چھوٹے لوگ کبھی بھی نظر نہیں آتے ہیں۔

میں نے گاڑی صابری نہاری کے سامنے بنے ہوئے چھوٹے سے پارک نما قطعہ زمین کے ساتھ روک لی تھی اور ہم دونوں گاڑی سے اُتر کر فیملی ہال میں جا کر بیٹھ گئے تھے۔ ابھی شام پوری طرح سے نہیں ہوئی تھی، ہمارا خیال تھا کہ نہاری لے کر گھر چلیں گے پھر گھر پر ہی کھائیں گے مگر اس بچّے کو دیکھ کر یکایک پروگرام بدل گیا تھا۔ بات یہ تھی کہ میری شادی کو گیارہ سال ہوچکے تھے، دنیا جہان کا ہر علاج کرالیا، ہزاروں روپے پانی کی طرح پھینک چکے تھے مگر پھر بھی نائلہ کی گود خالی ہی تھی۔ تعجّب کی بات یہ تھی کہ ہمارے سارے ٹیسٹ ہوچکے تھے، نہ مجھ میں کوئی خرابی نکلی اورنہ نائلہ کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ تھا۔ بظاہر ہم دونوں صحتمند تھے، دولت مند تھے، اپنا گھر، اپنا سب کچھ مگر ایک بچّہ نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں جیسے کسی چیز کی شدید کمی تھی۔

میں تو اپنے ایڈورٹائزنگ کے کاموں میں مصروف رہتا اور اتنا مصروف رہتا کہ صبح سے شام ہوجاتی، شامیں گھر پر مہمانوں کے ساتھ اور کبھی کسی دوسرے کے گھر میں مہمان بن کر گزرجاتیں اور رات کو نیند آہی جاتی مگر مسئلہ نائلہ کا تھا۔ نائلہ نے شادی کے بعد بھی سینٹ جوزف کالج میں لیکچرر کی نوکری نہیں چھوڑی تھی۔ دوپہر تک تو وہ وہاں مصروف رہتی مگر اس کے بعد اسے اکیلا گھرکاٹنے کو دوڑتا، پھر اکثر و بیشتر عزیز رشتہ دار، دوست احباب، کوئی ایسی بات بھی کہہ دیتے کہ وہ پریشان ہوجاتی تھی۔

مجھ سے تو کوئی کچھ کہتا نہیں تھا کسی میں ہمّت بھی نہیں تھی اور میں کسی کو اتنا موقع دیتا بھی نہیں تھا کہ وہ میرے ذاتی معاملات کو گفتگو میں لائے۔ مگر عورتوں کی بات اور ہوتی ہے، دوسروں سے کی جانے والی، کہی جانے والی باتوں کو بھی وہ اپنے اوپر لاگو کرلیتی ہیں۔ فلم، ڈرامے اور کہانیوں میں بولے اور لکھے جانے والے مکالموں پر وہ بے تاب بے تاب سی ہوجاتی ہیں۔ یہی کچھ حال نائلہ کا بھی تھا۔

پچھلے ہفتے ہم لوگ صابری کی نہاری لینے آئے تو وہ بچّہ نظر آیا تھا۔ میں نہاری لے کر واپس آیا تو اس نے مجھے اشارے سے وہ بچّہ دکھایا تھا۔ چار پانچ سال سے زیادہ عمر نہیں تھی اس کی، سرخ و سفید رنگت جس پر بہت سارے کالے سے نشانات سے لگے ہوئے تھے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا وہ۔

”کیوں نہ اس بچّے کولے جائیں ہم لوگ، اسے نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرکے، صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اپنا بیٹا بنالوں گی۔ کامران نام رکھیں گے اس کا، کیا خیال ہے؟ “

میں ہنس دیا تھا، ”یہ کیسے ہوسکتا ہے، نہ جانے کس کا بچّہ ہے اور کوئی کیوں دے گا اپنا بچّہ ہمیں، کیسی بے وقوفی کی بات کرتی ہو۔ “ میں نے اسے سمجھانے کے انداز میں منع کیا تھا۔ راستے بھر ہم اسی طرح کی باتیں کرتے رہے۔ اس ہفتے پھر نائلہ نے فرمائش کی تھی کہ نہاری لی جائے اور پھر نہاری لیتے لیتے ہم لوگ وہیں کھانے بیٹھ گئے تھے۔

نائلہ نے بیرے کو دروازے کے باہر اس بچّے کودکھا کر کہا کہ اسے بلاکر لائے، اس سے کچھ بات کرنی ہے۔

تھوڑی دیر میں بیرا اس بچّے کو لے کر آگیا۔ اس کا نام فیض تھا اور وہ بڑے اعتماد سے بات چیت کررہا تھا۔ مجھے اس کے اعتماد پر حیرت بھی ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اسے کچھ پتہ نہیں ہے کہ اس کے ماں باپ کہاں ہیں، وہ تو ڈیرے پر رہتا ہے جہاں اور بھی بچّے رہتے ہیں۔ میں نے بیرے سے پوچھا کہ اس بچّے کے ساتھ کوئی بڑا بچّہ بھی ہے تو اسے بلالاؤ۔ اسے بھی یہیں کھانا کھلائیں گے۔

دوسرا بچّہ بھی افغان تھا مگر اس کی عمر بارہ سال کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ اس نے بتایا کہ یہ سارے بچّے سائٹ میں پٹھان کالونی میں نالے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں جو ڈیرا کہلاتا ہے۔ وہاں سے ہی بچوں کو صبح سوزوکی ٹرک میں بٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچادیا جاتا ہے۔ دن بھر بھیک مانگتے رہتے ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد کوئی نہ کوئی آدمی آکر جمع شدہ پیسے لے لیتا ہے۔ شام کو یہاں پر یا کسی اور اسی طرح کی جگہ کھانا کھا کر گاڑی ہمیں ڈیرے لے جاتی ہے، اس بچّے نے میری منگائی ہوئی مغز نہاری اور نلی نہاری کے بڑے بڑے نوالے لیتے ہوئے کہا۔

ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں نائلہ نے التجا کی کہ میں اس بچّے کوساتھ لے چلوں۔ نہ جانے لمحے کی کون سی گرفت تھی کہ میں نے بھی فیصلہ کرلیا کہ یہ بچّہ اب ہمارا ہوگا۔

میں نے بڑے بچّے سے کہا تھا کہ ”کھانے کے بعد ہم لوگ اس بچّے کو لے جائیں گے ٹھیک ہے نا، اگر یہ ہمارے ساتھ رہے۔ “

اس نے بچّے کو غور سے دیکھا پھر مجھ سے کہا تھا کہ ”لے جاؤ بابا لیکن لالہ اسے واپس لے آئے گا۔ “

”ارے، لالہ آئے گا تو اس سے بات بھی کرلیں گے، تم فکر نہ کرو۔ “ میں نے کھانے کا بل دیا اور نہ جانے کیوں ساتھ ہی سو سو کے دونوٹ بڑے بچّے کی قمیض کی جیب میں ڈال دیے تھے۔ دروازے سے نکلتے ہوئے میں نے اس گندے سے بچّے کو اپنی گود میں اٹھایا اور تیزی سے اپنی گاڑی کھول کر اسے پچھلی سیٹ پر بٹھادیا تھا اور بہت آسانی کے ساتھ ہم اس بچّے کو گھر لے کر آگئے تھے۔

نائلہ کی جیسے لاٹری کھل گئی۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ گھر میں پہلے سے ہی چھوٹے بچوں کے کپڑے بنے رکھے ہوئے ہیں۔ نائلہ نے کامران کو نہلایا، دھلایا، کپڑے پہنائے، پیار کیا اور اس کی خاطریں کرتی رہی جیسے اس کا اپنا ہی بچّہ ہو۔ تین چار دنوں میں ہی وہ بچّہ نائلہ اور میرا گرویدہ ہوکر رہ گیا تھا۔ میں نے ایک سرکاری ہسپتال سے پرانی تاریخوں میں کامران کا پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوالیا تھا جسے کے ایم سی سے رجسٹر بھی کرالیا اور جہاں تک کاغذ اور قانون کا تعلق تھا، کامران ہمارا ہی بیٹا تھا۔

ہماری زندگی میں خوشیاں اس طرح سے اُمڈکر آئیں کہ میں خود حیران ہوگیا تھاکہ اس ایک لمحے کے فیصلے نے گھر کا ماحول کس طرح سے بدل دیا۔ کسی سلوموشن فلم کی طرح، ان لمحوں کا ایک ایک حصہ میری آنکھوں میں قید ہوگیا تھا۔ میں نے اسے اپنی گود میں اٹھایا، تیزی سے سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی گاڑی کا آٹو میٹک دروازہ کھول کر اسے پچھلی سیٹ پر نائلہ کے ساتھ بٹھایا اور پھر ہم لوگ گھر پہنچ گئے۔

ایک ہفتہ تو مبارکبادیں وصول کرنے اور مٹھائیاں کھلانے میں ختم ہوگیا۔ ہم نے سمجھا تھا کہ زندگی اسی طرح سے حسین رہے گی۔
تین ہفتوں کے بعد یکایک اس دن دو پٹھان گھر پر مجھ سے ملنے آئے۔ ایک نے اپنا نام لالہ گل رحمان بتایا تھا۔

انہوں نے مجھ سے کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کی، صرف یہی کہا تھا کہ وہ بچّہ زمرد ان کا بچّہ ہے اور اس کو ہم لوگ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے اور انہیں زمرّد یعنی کامران فوراً اپنے ساتھ واپس لے جانا ہے۔ یہ اصولی بات ہے۔ یہ بچّہ بغیر ان کی مرضی کے میں نے اغوا کرلیا تھا اور اغوا کیا ہوا بچّہ میں اپنے ساتھ رکھ نہیں سکوں گا۔ ہر قیمت پر زمرد ان کے ساتھ جائے گا۔ اگر میں شرافت سے مان لوں تو اچھا ہے ورنہ دوسرے طریقے بھی ہیں۔

میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی بتایا کہ اسے ہم باضابطہ اپنا چکے ہیں، شہر کے سارے بڑے لوگوں سے ہمارے تعلقات ہیں، پولیس والوں کوہم اپنے ساتھ شامل کرلیں گے اور کامران انہیں نہیں ملے گا۔ کامران ہمارے گھر کا فرد ہے۔ ہمارا بیٹا ہے۔ میرا جانشین ہے، مستقبل میں اس گھر کا مالک ہے ہمارا والی ہمارا وارث ہے یہ گھر کیسے چھوڑسکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2