جمہوریت اور ہندوستانی الیکشن


ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اورجمہوری ملک ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کی نگاہیں ہندوستان کے سیاسی اتار اور چڑھاؤ پر ٹکی رہتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی بسے لاکھوں ہندوستانیوں پر اپنے ملک کی سیاست کا بخار ویسا ہی چڑھا رہتا ہے جیسے ہندوستان میں بسے لوگوں پر ہوتا ہے۔ تاہم نئی نسل ہندوستان کی موجودہ سیاست سے دور ہی رہتی ہے۔ ہندوستانی عوام کے علاوہ انگریز بھی ہندوستانی الیکشن میں خوب دلچسپی دکھاتے ہیں۔

ہر سال ہندوستان میں کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتا ہی رہتا ہے خواہ وہ ریاستی الیکشن ہو یا پھر پنچایتی الیکشن، ان چناؤ میں عام آدمی خوب بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سیاست میں جمہوریت کا مذاق بھی بننے لگا ہے۔ آئے دن سیاست میں اخلاق کی گراوٹ پائی جارہی ہے اور کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جس سے زیادہ تر لوگوں کا جمہوری طرزِ حکمرانی سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔

جمہوریت ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس میں ہر انسان کو اپنے طور پر ملک کی حکمرانی کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ جمہوریت کے ذریعہ عام انسان حکومت کرنے کا حق دار ہوتا ہے۔ اس طرز حکمرانی میں عوامی نمائندے تمام فیصلے کرتے ہیں۔ تاہم جمہوریت کی دو اہم قسمیں ہیں۔ پہلی بالواسطہ جمہوریت ہے اور دوسری بلا واسطہ جمہوریت ہے۔ بالواسطہ جمہوریت کا استعمال دراصل چھوٹے قصبوں یا علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں عوام اپنی مرضی سے کسی بھی فیصلے میں حصّہ لے سکتے ہیں۔

جب کہ بالواسطہ جمہوریت کا دارومدار نمائندگی پر منحصر ہے، جس میں کسی ایک شخص کو چن کرلوگ اپنی بات منوانے اور پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں۔ مثلاًکوئی ایک فرد اپنے پسندیدہ لیڈر کو جو کہ کسی ایک پارٹی سے منسلک ہے، یا آزادانہ طور پر چناؤ لڑرہے ہیں، انہیں ووٹ دے کر پارلیمنٹ بھیجتا ہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کے مسئلے مسائل پر بحث کرسکے۔

یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانوی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘ ۔ جبکہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا جمہوریت کے بارے میں قول ہے کہ ’عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئی۔ ‘ ۔ میں جمہوریت کو ایک مضبوط اور عام آدمی کے بنیادی حق اور آزادنہ طور پر جینے کا ایک عمدہ ذریعہ مانتا ہوں۔ تاہم آج کل جمہوریت کے اس طرزِ حکمرانی کو جھوٹ، غبن، اور ذاتی مفاد کے مدّ نظر تار تار کیا جارہا ہے۔ جو کہ ایک تشویش اور افسوس ناک بات ہے۔

سنیچر 8 ؍ دسمبر 2018 کو جب ایگزِٹ پول سامنے آیا تو لوگوں کو حیرانی سے زیادہ کچھ راحت محسوس ہوئی کیونکہ ہندوستان کے تین اہم صوبوں میں کانگریس پارٹی کی جیت کی امید بتائی جارہی تھی۔ راجستھان میں تو کانگریس کی جیت کو یقینی بتایا جارہا تھا جبکہ مدھیہ پردیس اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور بی جے پی میں ٹکّر کی لڑائی بتائی جا رہی تھی اور کسی ایک پارٹی کو برتری ملنے کی کم امید بتائی جارہی تھی۔ ایگزِٹ پول کے بعد جہاں کانگریس کے لیڈروں میں امید کی کرن جاگی تو وہیں حکمراں بی جے پی کے خیمے میں لوگ نروس دکھائی دے رہے تھے۔

نروس دکھنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایگزِٹ پول سے ایک بہت بڑا جھٹکا لگا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے روایتی اور جارحانہ انداز میں لوگوں کو ایک بار پھر اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ دوسری طرف الیکشن کے آخری دور میں بی جے پی نے حسبِ معمول مندر بنانے کا پروپگنڈہ شروع کردیا تھا تاکہ کسی طرح لوگ ان کے بہکاوے میں آکر ان کی پارٹی کو جیت سے ہمکنار کر دے۔ وہیں کانگریس پارٹی اپنے روایتی انداز میں راہل گاندھی کی سر پرستی میں نریندر مودی کے جھوٹے وعدے، ناکام معاشی پالیسی، ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، نوٹ بندی اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے خلاف نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ جس سے عام آدمی کا یقین کانگریس پارٹی پر بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ ان صوبوں میں لوگ بی جے پی کی پالیسی سے نالاں بھی تھے۔

منگل 11 ؍ دسمبر 2018 کی صبح لندن سردی کی لپیٹ میں منجمد تھا اور باہر سکون طاری تھا۔ لیکن میری آنکھ صبح چار بجے کھل گئی اور میں ٹیلی ویژن آن کر کے این ڈی ٹی وی، اے بی پی نیوز اور آج تک چینلز پر ہندوستان کی پانچ ریاستوں کے الیکشن کے تنائج دیکھنے کے لیے صوفے پر براجمان ہوگیا۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب تین اہم ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت قائم تھی وہاں کانگریس پارٹی جیت کی طرف گامزن تھی۔ تاہم بہت سارے سیاسی ماہرین مکمل نتیجہ آنے کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ بی جے پی ہی الیکشن جیتے گی۔ سچ پوچھیے تو مجھے بھی تھوڑی دیر کے لیے ایسا ہی محسوس ہو ا اور رزلٹ دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا۔

گویا دن ڈھلتے ڈھلتے جب تمام نتیجے سامنے آگئے تومجھے احساس ہوگیا کہ نریندر مودی کی دقیا نوسی سے لوگ اب عاجز آچکے ہیں۔ لوگوں نے مودی کی جملہ بازی کو شاید محض روز مرّہ کا مذاق سمجھ کر اس بار ان کی پارٹی کو ووٹ دینا غیر ضروری سمجھا ہے۔ جس کی مثال راجستھان، مدھیہ پردیس اور چھتیس گڑھ کے نتیجے سامنے آتے ہی پتہ چلنے لگا تھا۔ تاہم راجستھان اور مدھیہ پردیس میں اب بھی پورے طور پر لوگوں نے مودی اور ان کی ٹیم کو خارج نہیں کیا ہے۔ جس کی ایک وجہ شاید بی جے پی کے مذہبی بھید بھاؤ والی پالیسی ہے اورعین موقعے پر مندر کی تعمیر کا مدعا بھی ہے۔ لیکن ایک بات اچھی یہ ہوئی کہ ہندوستان کی سیاست میں ایک بار پھر لوگوں نے ثابت کر دیا کہ ہندوستان کے لوگ محض مذہبی نقطہ نظر سے کسی پارٹی کو ووٹ دینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔

میں جمہوری ملک میں اس طرح سے کسی پارٹی کوخارج کرنا اور اس کی پالیسیوں کا انکار کرنا ایک مثبت قدم مانتا ہوں۔ جس سے حکومت خوف زدہ رہے گی اور وہ کبھی کسی کی آزادی دبا کر اپنے ذاتی مفاد کا فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ اس کے علاوہ میں اس بات کو بھی ترجیح دیتا ہوں کہ ایک صحت مندانہ جمہوریت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ الیکشن سے قبل لوگ اپنے ووٹ کا صحیح طور پر استعمال کریں اور ایسے لوگوں کو حکومت بنانے پر روک لگائیں جو ملک اور عوام کی ترقی اور کامرانی کی راہ میں لاپرواہی برتیں۔

2019 ہندوستان کی سیاست کا ایک اہم سال ہے۔ پوری دنیا کی نظر ہندوستان کے عام چناؤ پر لگی ہوئی ہے کہ، کیا ایک بار پھر وہ لوگ حکومت بنائیں گے جنہوں نے پچھلے چار برسوں میں مذہبی نفرت کو بڑھاوا دیا ہے، جنہوں نے ملک کی معاشی حالت بد سے بد تر کر دیا ہے، جنہوں نے تانا شاہی کے ذریعہ عام انسان کی آواز کو دبادیا ہے، جنہوں نے صحافت کو خرید لیا ہے، جنہوں نے امیروں کو مزید امیر بنانے میں اپنا وقت ضائع کیا ہے، جنہوں نے عورتوں کی عصمت کو پامال کیا ہے، جنہوں نے غریبوں کا جینا دو بھر کیا ہے، جنہوں نے ملک میں دہشت کا ماحول قائم کیا ہے۔ نہیں مجھے ہندوستانی عوام پر پورا بھروسا ہے کہ وہ 2019 کے عام چناؤ میں اپنا ووٹ ایسے لوگوں کو نہیں دیں گے جو ملک کے وقار اور عزت کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).