مرد بنیں، درندے نہیں


ہمارے معاشرے میں مرد کی تعریف بڑی عجیب ہے، یعنی بچے پیدا کرنے والا، گالی دے کر بات کرنے والا، عورت کی چیڑپھاڑ کرنے والا مرد ہی اصلی مرد ہے، اور وہ جو عورت کی عزت کرتے ہیں، انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں، انہیں کمزور مرد سمجھا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مرد کا اولین فرض عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہی ہے۔ اس لیے اسے باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر کا روپ دے کر اس کا کردار واضح کیا گیا ہے۔ جو مرد ان رشتوں میں بہتر ہیں وہ اپنی ساری خامیوں، اور معاشی کمزوریوں سمیت مضبوط کردار کے حامل مرد ہیں مگر وہ جو اپنی برتری کے زعم میں عورت کا تماشا بناتے ہیں، وہی اصل میں ”مردانہ کمزوری کا شکار خصی مرد“ ہیں اور معاشرے کا ناسور بھی۔

ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ایک خصی شخص اکیلی عورت کو معافی مانگنے پرمجبور کررہا ہے، اسے گالی سے نفرت ہے مگر وہ خود گندی گندی گالیاں دے کر اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کروا رہا ہے۔ یقین اس کی تربیت کرنے والی آغوش اور ہاتھ تھا م کر سکول چھوڑنے والا باپ بھی اسی سوچ و فکر کے مالک ہوں گے، اسی لیے وہ مرد عورت کی عزت کواپنی گالی کی نوک پر اچھا ل رہا ہے اور اس کا دوسرا دوست ویڈیو بناتے ہوئے نصیحت کر رہا ہے کہ گالی تو نہیں دینی چاہیے تھی نہ آپ کو۔ گالی دینا بری بات ہے۔ کیا ان کو عزت کے معنی سمجھائے گئے تھے یا والدین نے اپنی کمزور پروڈکٹ معاشر ے میں پٹہ ڈالے بغیر ہی چھوڑ دی۔ جس کے نتائج معاشرہ توبھگت ہی رہا ہے، وہ خودبھی اب بھگتیں گے اور لازم ہے کہ ہم بھی ایسوں کو انجام دیکھیں گے۔

ہمارے معاشرے کافتور سمجھ لیں یا اس خطے کا کلچرجہاں ایک بات طے پا چکی ہے کہ فاحشہ، آواراہ اور بدکردار صرف عورت ہی ہے؟ اور مرد گنگا نہایا ہوا اورمکے کا حاجی۔ ساری گالیاں ماں بہن سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتی ہیں۔ مجھے آج تک کوئی مردانہ گالی نہیں ملی صرف زنانہ سے ہی سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ ۔ یعنی جو معاشرہ چل ہی عورت پر رہا ہے وہاں عورت ہی غیر محفوظ ہے، کچھ حیا، کچھ شرم مگر نہیں جی۔ جب اماں جان نے کہہ دیا کہ بچہ ہی تو ہے۔ اب یہ بچہ جو مرضی کرے۔

میں مذہب کی بات نہیں کرنا چاہتی کہ مذہب اس خطے میں صرف ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے۔ مرد کو چار شادیوں والی اجازت تو یاد ہے مگر اسے برابری والا سبق بھول جاتا ہے۔ واضح ہے کہ تم سے عورت کی بابت سوال کیا جائے گا۔ یہ بھی واضح ہے کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو، مگر ہوس اور انا میں مبتلا، میں مرد کی برتری کا شکار یہ مخلوق سب کچھ ہی بھلائے بیٹھے ہیں۔ یاد ہے تو بس یہ کہ ہم مرد ہیں اورہمارے لیے سب جائز ہے۔ تف ہے ایسی مردانگی پر جو ایک پستول، فحش گالیوں اور چند انچوں پر کھڑی ہے۔

بنت حوا کو کہیں شادی سے انکار پر زندہ جلا دیا جاتا ہے، تو کہیں مریم کی بیٹی کو جرگہ پسند کی شادی کرنے پر قتل کرنے کا حکم دے دیتا ہے۔ توکہیں یاشودھا کی ہم جنس تیزاب گردی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسی بہت ساری خبریں متواتر میڈیا کا حصہ بن رہی ہیں جن سے انسان اور انسانیت کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ محبت دو لوگوں کی مشترکہ کہانی کا سفر ہے جو اکثر دو سے شروع ہو کر ایک پر ختم ہوتی ہے مگر اس طرح نہیں کہ بات دوسرے کے قتل اور زندگی سے کھیلنے تک چلی جائے۔ ایسی روش محبت پرستوں کی نہیں، ہوس پرستوں کی ہوا کرتی ہے۔

ہمارے خطے میں محبت میں بھی جاگیر داری نظام کود پڑا ہے کہ وہ صرف میری ہے۔ خاص کر انا کا شکار مرد جب کسی عورت کو پسند کر لے اور اس سے محبت کا دعوی بھی کرے، تو یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ عورت میری ہو گی اور بس۔ تب اس یک طرفہ محبت میں اکثروبیشتر عورت کو اس کے انکار کی سزا دی جاتی ہے۔ کبھی معاشرے میں رسوا کر کے، گالیاں دے کر، کبھی تیزاب ڈال کر تو کبھی زندگی چھین کر حتیٰ کہ لڑکی کو خاندان سمیت زندہ جلا دینے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

یہاں پر سوال یہ ہے کہ آخرخود ساختہ مردانہ انا کا شکارعورت ہی کیوں ہوتی ہے؟ کیا اسے جینے کا حق نہیں؟ پاکستان جیسے معاشرے جہاں لڑکے کو پالنے میں ہی، بیٹیوں پر فوقیت دے دی جاتی ہے، کہ تم اعلی و برتر ہو۔ کوئی غلطی کرے یا گھر سے باہر سے کوئی شکایت آئے تو مائیں ”یہ بچہ ہے“ کہہ کراس کو بچا لیتی ہیں۔ جن معاشروں میں انسانوں، جذبوں اور رشتوں کو کو جنس میں تولا اور پرکھا جائے، جہاں انسان نہیں مرد اور عورت ہی بستے ہوں وہاں پر عورتوں کے خلاف ایسے سنگین جرائم کا ہونا اور پھر ان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرناکوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔

بہرحال عورت کو وقار سے جینا ہے تو اسے خود مضبوط ہو نا ہو گا، اسے مرد کے برابر مت لاؤ اسے وہ حقوق دو جس کی وہ حقدار سے زیادہ حصہ دار ہے۔ اسے عورت سے پہلے انسان سمجھا جائے، اس کی سوچ و فکر کا احترام کیا جائے۔ یہ اس کا شرعی حق ہے اس کے ارد گردرہنے والوں کو ”لوگ کیا کہیں گے“ والی سوچ سے نکلنا ہو گا۔ تبھی وہ دکھ اور ذلت سے نکل سکے گی۔ وہ گھر والوں کو بتائے گی کہ کیا ہوا، کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ وہ ظلم کے خلاف لڑ سکے گی، وہ آپ کی ایک بہترین مددگار ثابت ہو گی۔ صرف ایک بار مرد بنیں وہ بھی اصلی والے، عزت رکھنے والے نہ کہ اچھالنے والے۔

یقین کریں یہ بہت پیاری مخلوق ہے اسے دل پشوری اور جنسی تسکین، بچہ پیدا کرنے والی مشین سے آگے نکل کر ملیں۔ یہ بہترین رفیق ہے۔ میں مانتی ہوں کہ بعض خواتین خود بھی غلط ہوتی ہیں مگر اس کی اس سوچ کو، رویہ کو سمجھنے کی کوشش تو کریں؟ ہو سکتا ہے جو وہ چاہ رہی ہے اسے ویسا نہیں مل رہا۔ اس لیے نہ وہ قبول کر پا رہی اور نہ ہی سمجھوتہ۔ اس لیے وہ ردعمل دے رہی ہے، وہ خود بھی اذیت میں ہے، اسے سمجھیں اورمرد بنیں، درندے نہیں۔

جوں جوں انسان نے ترقی کی منازل طے کیں توں توں معاشرتی رویے تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اگرچہ تمام تہذیبوں اور ممالک میں اخلاقیات بھی ہیں، ضابطہ حیات بھی اورخواتین بارے قوانین بھی تاہم اہم بات یہ ہے کہ ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اوراگر ان کی پیروی نہیں ہوتی تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا موجودہ معاہدہ عمرانی ناکام ہو چکا ہے اور ہمیں پھر سے ایک نئے معاہدے کی ضرورت پر گئی ہے یا پھر ہر عروج کے بعد زوال کے عالمگیر اصول کے مترادف انسان پھر جنگل کی زندگی کی جانب رو بہ سفر ہے؟ جو بھی ہے اس پر مکالمہ بہت ضروری ہے تاکہ مذہبی اقدار، قوانین اور اخلاقی ضابطہ ا خلاق کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).