کیا بدھا پیغمبر تھے، دانشور تھے یا ماہرِ نفسیات؟


بدھا کے پیروکاروں اور پرستاروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے چاہنے والے دنیا کے چاروں کونوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدھ ازم ایک مذہب ہے اور بدھا ایک لاکھ چالیس ہزار پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر تھے جو اس دنیا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہ تو بدھ ازم مذہب ہے اور نہ ہی بدھا پیغمبر تھے کیونکہ نہ تو وہ کسی آسمانی خدا کو مانتے تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی دعوہ کیا کہ ان پر وحی اترتی تھی۔ وہ نہ تو گناہ و ثواب پر یقین رکھتے تھے نہ ہی جنت دوزخ پر۔ ایسے لوگ بدھا کو ایک دانشور سمجھتے ہیں۔

اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی نگاہ میں بدھا ایک ماہرِ نفسیات تھے کیونکہ وہ انسانی ذہن کے رازوں سے واقف تھے۔

بیسویں صدی میں بدھا کی مقبولیت کی ایک وجہ ہرمن ہیس کا ناول سدھارتھا ہے جو بدھا کی زندگی کے بارے ہے۔ جب اس ناول کو ادب کا نوبل انعام ملا تو اسے لاکھوں لوگوں نے پڑھا اور ان کی بدھا کی زندگی اور تعلیمات میں دلچسپی میں اضافہ ہوا۔

مغرب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بدھا کو ایک ایسا انسان دوست فلاسفر سمجھتے ہیں جنہوں نے ہندو ازم کے روایتی مذہب اور اعتقادات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے عوام کو ترغیب دی کہ وہ برہمنوں کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کی پیروی کریں۔ بدھا نے عوام سے کہا کہ وہ آسمانی تعلیمات سے زیادہ اپنی عقل پر بھروسا کریں۔ بدھا خود بھی عوام سے برہمنوں کی دقیق، مشکل اور گنجلک زبان کی بجائے عام فہم زبان میں خطاب کرتے تھے تا کہ ان کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔

مغرب میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو بدھا کو ایک ایسا ماہرِ نفسیات مانتے ہیں جو انسانی ذہن اور شخصیت کے رازوں سے واقف تھے۔ ایسے ماہرین نفسیاتی مسائل کے مریضوں کا بدھا کی تعلیمات سے تعارف کرواتے ہیں تا کہ وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔ بیسویں صدی میں بدھا کے فلسفے کی مقبولیت کی وجہ سے کئی حلقوں میں MEDITATION AND MINDFULNESS کی روایات مقبول ہو رہی ہیں۔

جن لوگوں نے بدھا کے اقوال کا مجموعہ DHAMAPADA پڑھ رکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بدھا نے انسانی دکھوں کی تشخیص بھی کی اور ان کا حل بھی بتایا۔ ان اقوال سے بدھا کے شعور کی بلندی اور بصیرت کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں یہاں بدھا کی تعلیمات کے صرف چار اصولوں کا ذکر کروں گا تاکہ قارئین کو بدھا کے فلسفے سے تعارف ہو سکے۔

بدھا کے فلسفے کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہماری سوچ ہماری جذباتی کیفیت کا تعین کرتی ہے۔ اگر ہم زندگی کے بارے میں مافوق الفطرت حوالے سوچیں گے تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گے اور اگر حقیقت پسندانہ انداز سے سوچیں گے تو ایک خوشحال زندگی گزاریں گے۔

بدھا کے فلسفے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ہمیں ایک صحتمند زندگی گزارنے کے لیے اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھنا ہوگا۔ جو لوگ اپنے خیالات پر قابو نہیں رکھتے ان کی زندگی پر ان کے خیالات کا کنٹرول ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا

Be master OF mind do not be mastered BY mind

یہ فرق بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن اس میں ذہنی صحت کا ایک بڑا راز پوشیدہ ہے۔ جو انسان اپنی سوچ اور اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھ جاتے ہیں وہ اپنی توجہ زندگی کی اہم مسائل پر مرکوز کرتے ہیں۔ اس طرح وہ غیر ضروری چیزوں پر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتے۔ اس اصول سے وہ ماہرینِ نفسیات کافی استفادہ کرتے ہیں جو COGNITIVE BEHAVIOUR THERAPY پسند کرتے ہیں اور اپنے مریضوں کو سکھاتے ہیں۔

بدھا کے فلسفے کا تیسرا اصول یہ تھا کہ انسان اس لیے دکھی ہوتے ہیں کہ وہ دنیاوی چیزوں سے دل لگا لیتے ہیں۔ ان چیزوں میں گھر، گاڑی، نوکری، بیوی اور بچے سبھی شامل ہیں۔ وہ اس لگاؤ کی وجہ سے ان چیزون سے بڑی بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہین اور ان کے سکھ آہستہ آہستہ دکھ بن جاتے ہیں۔ غالب فرماتے ہیں

؎ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

بدھا کے اصول پر مختلف روایتوں کے بہت سے سنت، سادھو اور صوفی عمل کرتے ہیں اور درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ میرے صوفی والد کہا کرتے تھے کہ انسان کا دل ایک کشتی کی طرح ہے اور زندگی سمندر کی طرح۔ جب تک سمندر کا سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں ٹن پانی کشتی سے باہر رہتا ہے وہ محفوظ رہتی ہے لیکن اگر اس میں سوراخ ہو جائے اور دو گیلن پانی کشتی کے اندر آ جائے تو وہ دو گیلن پانی اسے ڈبو دیتا ہے۔ جب انسانی دل میں کوئی خواہش گھر کر لے تو وہ اسے دکھی کر سکتی ہے۔

بدھا کے فلسفے کا چوتھا اصول یہ تھا کہ جو لوگ صرف نیکی کی باتیں کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے وہ کبھی خوش نہیں رہتے۔ بدھا جانتے تھے کہ دنیا قوانینِ فطرت سے چلتی ہے اور نتائج کا انحصار عقائد سے زیادہ اعمال پر ہوتا ہے۔ اسی کو مکافاتِ عمل کہاجاتا ہے۔

چونکہ بدھا کی ایک بہتر انسان بننے کی تعلیمات میں کہیں کسی آسمانی خدا، فرشتوں، مذہبی کتابوں، گناہ و ثواب ’جنت دوزخ کا ذکر نہیں اس لیے بھی وہ سیکولر دنیا میں زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بدھا کا نیک انسان ایک کنول کے پھول کی طرح ہے جو دلدل میں رہ کر بھی اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ دنیا میں رہ کر بھی اس سے دل نہیں لگا تا۔

بدھا چونکہ 563 BC میں پیدا ہوئے اور 483 BC میں فوت ہوئے اس لیے ان کی تعلیمات عیسائیت اور اسلام سے سینکڑوں سال پہلے کی ہیں۔

بدھا کا وہ قول جو ساری دنیا میں بہت مقبول و معروف ہوا یہ ہے

کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ کسی دانا انسان نے کہی ہے۔
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ اسے سب مانتے ہیں۔
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی مقدس کتاب میں لکھی گئی ہے۔
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ کہ اسے کوئی اور مانتا ہے۔
صرف اس بات کو مانو جسے تم خود سچ سمجھتے ہو۔

بدھا کا موقف تھا انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہے۔ بدھا کا مشورہ تھا کہ ہر انسان کو اپنے ضمیر کی پیروی کرنی چاہیے اور دوسروں سے ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔

اس کالم کے آخر میں میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں بعض لوگ بدھا کو ایک پیغمبر، بعض انہیں ایک دانشور اور بعض انہیں ایک ماہرِ نفسیات سمجھتے ہیں۔
؎ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail