میرا کشمیر جو عورت دوست ہے


جنوبی ایشیا کا وہ علاقہ کہ جسے تابہ فلک بلند تاج نما ہمالیہ، زنسکر، نانگا پربت، پیر پنجال اور دوسرے پہاڑی سلسلوں کے برف پوش کہسار ہزاروں سال سے اپنے دامن سے لگائے ہوئے ہیں۔ یہ پہاڑ اس سرزمین کو اپنی پیوستگی، ٹھنڈک، چمک، مخلتف دریاؤں کا منبع و مرکز، برفانی دلکشیاں، شفاف جھرنے، نیلی ندیاں، سرو کے میٹھے سائے اور اساطیری رستوں پر بنی تنگ گھاٹیاں بخشتے جم کر کھڑے ہیں۔ اسی جادوئی سر زمین پر تاریخ کا سفر بتلاتا ہے کہ جہاں مختلف راجاؤں، نوابوں اور بادشاہوں کی حکومت رہی وہیں ملکہ دیدا، لال دید، ملکہ کوٹا رانی، حبا خاتون، راج بیگم اور شاملی بیگم جیسی روشن بخت عورتیں بھی اسی خواب نما دھرتی پر جنمی اور پروان چڑھیں۔

پنڈت لکھاریوں کی اس سر زمین میں پیدا ہونے والے پنڈت کلہن نے کشمیر کی تاریخ کی پہلی مفصل کتاب ’راج ترنگنی‘ میں نیل مت پورن کے ایک شلوک کے مطابق سر زمینِ کشمیر کو ’پاربتی‘ بتایا ہے۔ جہاں عورت کے دیوی سمان ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ سلطنت سنبھالنے اور مختلف ادبی، تخلیقی و فنی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہنے کی مستند روایات موجود ہیں۔

1846 میں ہونے والے معاہدہِ امرتسر کے تحت قائم ہونے والی نوابی ریاست جموں و کشمیر 1947 کی تقسیمِ برصغیر کے کچھ عرصہ بعد سے تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر حصہ اپنی الگ جغرافیائی حقیقتوں کے ساتھ مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی و لسانی تاریخ کا حامل ہے۔ موجودہ عہد تک آتے آتے اس خطے میں بسنے والوں کی شناخت مختلف نسبتوں کے گھن چکر میں گھومتی کسی حد تک پراسراریت کی حامل ہو چکی ہے۔ علاقائی شناخت کے ساتھ ساتھ قومی و ریاستی شناخت ایک اہم سوالیہ نشان کے طور پر ریاستی باشندوں کے اذہان میں ہر دم ٹمٹماتی رہتی ہے۔ تنوع اور حسن کے امتزاج کے حامل اس خطے میں بہرحال مذکورہ بالا کشمیریت کی چھاپ موجود ہے۔ یہاں صد ہا سال سے مخلتف رنگ و نسل، مذہب اورسیاسی افکار سے تعلق رکھنے والے کثیر اللسان گروہ بغیر کسی جنسی تفریق کے بستے آئے ہیں۔

چونکہ میرا تعلق اِس خطے کے اُس حصے سے ہے جو پاکستان کے زیرِ انتظام ”آزاد کشمیر“ کے نام سے جانا جاتا ہے لہذا میں اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں اس علاقے کی ایک خصوصیت سے قاری کو متعارف کروانا چاہتی ہوں جو ہمارے پرکھوں کی دین ہے۔ جیسا کہ میں ان خواتین کا ذکر پہلے کر چکی ہوں جن کا وقار تا حیات سر زمینِ کشمیر کے ماتھے پر کسی کہکشاں کی مانند دمکتا رہے گا۔ یہ عورتیں جس زمانے میں اپنی مثال آپ بن کر ابھریں وہ زمانہ نہ تو انسانی و نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا زمانہ تھا نہ سوشل میڈیا کا بلکہ دھرتیِ کشمیر کی فضا میں ہی ایسی تاثیر تھی جو ان ہستیوں کے نہ صرف پنپنے بلکہ نکھر کر سامنے آنے کے لیے انتہائی موزوں تھی۔

موجودہ دور میں جبکہ ریاست جموں وکشمیر کی ساخت و تاریخ کے ساتھ ساتھ زمانے میں بھی بہت تغیر آ چکا ہے کشمیری ہواؤں کی تاثیر کا یہ پہلوبہرحال اس کے ہر حصے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بہ نسبت جب ہم کشمیر (ایل او سی کے دونوں طرف) سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی معاشرتی و سیاسی اور تخلیقی و تعلیمی سرگرمیوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں جنسی تفریق کوسوں دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ آزاد کشمیر صنعتی و معاشی طور پر ایک ترقی پذیرعلاقہ ہے مگر علاقے میں موجود وسائل و مواقع بنا کسی جنسی تخصیص کے عوام کو میسر ہیں۔

اگرچہ آزاد کشمیر میں وسائل و مواقع کا بحران بہرحال موجود ہے مگر میرا اشارا دستیاب وسائل و ترقی کے مواقع پر بلا تفریقِ جنس عوام کے استحقاق کی طرف ہے۔ اس کی واضح مثال مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی نمایاں شرکت اور ان کی قابلِ قدر خدمات سے ملتی ہے۔ سرکاری و نجی ہر دو سطح پر آزاد کشمیر کی خواتین تعلیم، سماجی بہبود، طب و صحت، بیوروکریسی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، وکالت، انجینئیرنگ، بینکنگ، سیاحت، آرکیالوجی غرض ہر قابلِ ذکر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔

آزاد کشمیر کی خواتین نہ صرف پیشہ ورانہ مہارت سے مامور ہیں بلکہ سوشل ایکٹیوزم، این جی اوز، فائن آرٹس، پرفارمنینگ آرٹس، صحافت اور سیساست کے میدان میں بھی اعلی ترین عہدوں پر جانفشانی سے خدمات سرانجام دیتی نظر آتی ہیں۔ سیاست چاہے اقتدار کی ہو یا مزاحمت کی، سوشل ایکٹوزم چاہے قومی سطح کا ہو یا بین الاقوامی، کشمیر کی عورت ہر میدان میں نمایاں ہے۔ یہ بات آزاد کشمیر کے عوام کے لیے خوش آیند ہونی چاہیے کہ وہ اب بھی اپنے معاشرے میں ایسی اقدار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس میں خواتیں کو ریاست کا باشندہ پہلے اور ایک عورت بعد میں سمجھا جاتا ہے۔

ایسا ہر گز نہیں ہے کہ آزاد کشمیر میں جنسی تفریق کوئی انہونی ہو۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں عورتوں کے عوامی سطح پر کام کرنے کی کاوِشوں کو جنسی بنیاد پر سبوتاژ کرنے کے واقعات ہوئے ہیں جب ایک عام عورت بغیر کسی سفارش یا با اثر حلقوں کی پشت پناہی کے فقط اپنی قابلیت کے بل بوتے پر نمایاں ہونا شروع ہوتی ہے تو کچھ نادان لوگ اس کے خاندانی پس منظر سے لے کر اس کی ذاتی زندگی تک کا کھوج لگانے میں جٹ جاتے ہیں اور پھر اس کے کردار کو خود ساخستہ پیمانوں پر پرکھنے کے بعد اسے مختلف غیر اخلا اقی القابات سے نوازتے بھی نہیں چوکتے۔ مگرمیں ایک بار پھر اپنے ذاتی تجربے، مشاہدے اور عوامی سطح پر کام کرنے والی بہت سی باہمت آزاد کشمیری خواتین سے گفتگو کی بِنا پر بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتی ہوں کہ ایسے ناخشگوار واقعات خطے میں خال خال ہی رونما ہوتے ہیں۔

بطور شاعر عورت کو لے کر میرے ذہن میں اکثر ایک ہی تمثیل ابھرتی ہے جو میرے خیال میں سر زمینِ کشمیر کے باسی ہونے کے ناطے ہم سب کی حسِ جمالیات کا اجتماعی اظہاریہ ہو سکتی ہے۔

جیسے شاخ پر کھلا ہوا خوش رنگ پھول ہر انسان کو بے حد حسین و دلکش لگتا ہے اور اگر اسی پھول کو آپ شاخ سے توڑ کر کوٹ کی جیب میں ٹانک لیں تو بھی وہ خوبصورت ہی لگے گا اور اپنی دلکشی کے سبب آپ کو بھی دیکھنے والی آنکھوں میں قابلِ ستائش بنا دے گا مگر صرف چند ہی گھنٹوں کے لیے، یا اگر خوبصورت و خوشبودار پھولوں کا کوئی گچھا توڑ کر اسے ڈراینگ روم میں رکھے گلدان کی زینت بنا لیا جائے تو وہ بھی آنے والے احباب کی نظر میں آپ کو خوش ذوق ثابت کر دے گا مگر یہ تاثر بھی صرف چند گھنٹوں کا ہی رہے گا۔ بالکل ویسے ہی عورت کو بھی اگر اس کے اپنے تئیں پنپنے دیا جائے تو وہ مکمل طور پر نکھر کے سامنے آئے گی اور ارد گرد کے ماحول میں خوشبو و خوبصورتی بھی بکھیرے گی چہ جائیکہ اسے توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی جیب یا میز یا سیج پر سجا دیا جائے۔

مجھے خوشی ہے کہ کشمیریوں کو ورثے میں ملی حسین وادیوں میں کھلے پھولوں کی آبیاری کرنا بھی آتاہے اور باغبانی بھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).