فلم منٹوکی پاکستان میں نمائش پر پابندی کیوں لگائی گئی؟


حال ہی میں برصغیر کے مشہور ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بھارت میں فلم بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں منٹو کا کردار نوازالدین صدیقی نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کمال مہارت سے منٹو کا مشکل کردار نبھایا ہے اور ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت بھارتی فلم انڈسٹری کے چند بہترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ اس فلم کی ہدایت کارہ نندتا داس ہیں۔ جنھوں نے بہت ہی عمدہ طریقے سے منٹو کی زندگی کا وہ حصہ دکھایا ہے جب برصغیر کی تقسیم ہوئی۔

اس وقت کے حالات سے منٹو نے بہت اثر لیا۔ اور ان حالات کے درد اور کرب کو اپنے افسانوں میں بیان کیا۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سے منٹو کو سچ بولنے اور سچ لکھنے کی وجہ سے آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے دور کا اتنا عمدہ لکھاری ہونے کے باوجود کس طرح وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

دو دن پہلے اس فلم کی ہدایت کارہ نندتا داس کی طرف سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ان کی فلم منٹو کو پاکستان میں نمائش سے روک دیا گیا ہے۔ انھوں نے اس پابندی کی وجوہات فلم میں تقیسمِ ہند کو دکھانا اوراس میں فحش زبان کا استعمال بتایا ہے۔ جس پر یہاں پاکستان کے چند ادیبوں اور سماجی شخصیات، جن میں منٹو صاحب کی دونوں صاحبزادیاں بھی شامل ہیں، کی طرف سے ایک آن لائن پٹیشن بھی شروع کی گئی ہے جس میں حکومتِ پاکستان اور سنسر بورڈ سے اس فلم کی نمائش پر پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے یہاں کبھی تمام بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی لگائی گئی اور کبھی چند مخصوص فلموں کی نمائش پر ان کے پاکستان مخالف مواد کی بناء پر پابندی لگائی گئی۔ مگر اپنے ہی ملک کے ایک نامور مصنف کی زندگی پر بنائی گئی فلم پر پابندی لگانا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ یہاں پر نہ صرف اس سے پہلے سرمد سلطان کھوسٹ کی ہدایت کاری میں منٹو کی زندگی پر فلم بنائی گئی اور اسے نمائش کے لیے پیش کیا گیا بلکہ اجوکا ٹھیٹر کی طرف سے منٹوکی زندگی پر اسٹیج ڈرامہ بھی ملک کے مختلف شہروں میں پیش کیا جاتا رہا۔

اب اگر تو مواد کی بات ہے تو نندتا داس کی فلم میں تو منٹو کے ایک افسانے کو دکھایا گیا ہے جبکہ سرمد سلطان کی بنائی گئی فلم میں بہت سارے افسانوں کو دکھایا گیا ہے۔ فحش مواد کا الزام منٹو پر ان کی زندگی میں بھی لگا، ان پر مقدمات بھی بنائے گئے۔ جن میں وہ یہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ وہ جو سماج میں دیکھتے ہیں وہ اپنے افسانوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ اب سماج کا چہرہ ایسا ہے تو ان کے دکھائے گئے آئینے میں وہ ویسا ہی نظر آئے گا۔ اگر تو اس وجہ سے فلم پر پابندی لگائی گئی ہے تو پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سماج کا چہرہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ اور اگر پارٹیشن کو بنیاد بنایا گیا ہے تو اس موضوع پر بھی یہاں ایک ڈرامہ ”گھگھی“ بن چکا ہے اور ایک ہم ٹی وی پر ”آنگن“ بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔

تو فلم پر پابندی اگر صرف اس وجہ سے لگائی گئی ہے کہ اس اس کو بھارت کی ایک ہدایت کارہ نے بنایا ہے اور اس میں بھارتی اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ تو حکومتِ پاکستان اور سنسر بورڑ سے اپیل ہے کہ وہ تھوڑا بڑے دِل کا مظاہرہ کریں اور اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرکے ادب سے شغف رکھنے والے لوگوں کواپنے ملک کے اتنے بڑے مصنف کی زندگی پر بنائی گئی ایک معیاری فلم سے محروم نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).