کام سے کام رکھنا


ایک لطیفہ ہے کہ، ”ایک بچہ مسلسل ٹافیاں کھا رہا تھا تو پاس بیٹھے شخص نے اُسے ٹوکتے ہُوے کہا کے بیٹا اتنی ٹافیاں نہ کھاؤ اس سے تمھاری صحت پر بُرا اثر پڑے گا اور تمھاری عُمر کم ہو جائے گی تو اس پر اُس بچے نے جواب دیا کے میرے دادا کی عمر 101 سال ہے اس جواب پر اُس شخص نے حیران ہو کر پوچھا کیا وہ بھی اتنی ٹافیاں کھاتے ہیں؟ تو بچے نے معصومیت سے جواب دیا کہ نہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں“۔

کہنے کو تو یہ ایک بُہت عام سا لطیفہ ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک لمبی اور خوش و خُرم زندگی گزارنے کے چند اصولوں میں اپنے کام سے کام رکھنا بُہت اہم اصول ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانا ہمارا قومی اور عمومی مزاج بن چُکا ہے۔ گھر میں ہوں یا بازار میں، دفاتر میں ہوں یا کسی محفل میں ہر کوئی اپنے کام کی بجائے دوسرے کی حرکات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور صرف نظر ہی نہیں ساتھ میں تبصرہ اور مشورہ دینا بھی اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔

محلے دار اپنے گھر سے زیادہ ساتھ والے کے گھر میں ہونے والی آمدورفت پر نظر رکھتا ہے، ہوٹل میں ہوں تو ساتھ والی ٹیبل پر پڑے کھانے کو گھورتے ہیں، روڈ پر ہوں تو آگے والی گاڑی کے ڈرائیور پر تنقید کو باعث ثواب مانتے ہیں، خُود بے شک عقل سے کورے ہوں مگر دوسروں کی بہتری کے لئے ہمارے مشورے لا تعداد ہوتے ہیں، اپنی ناک بے شک بہہ رہی ہو مگر دوسرے کا ناک صاف کرنے پر ہم ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں، اپنا بیٹا جوا ری اور چور ہو مگر دوسرے کے بیٹے کا سگریٹ پینا ایک سنگیں جُرم سمجھتے ہیں بلکہ اُسے راہ راست پر لانے کے اقدامات بھی کرتے ہیں، خود حاجی صاحب کُنڈا ڈال کر گرمیوں میں ائیر کنڈیشنر چلائیں تو جواب ملتا ہے سب کرتے ہیں مگر کوئی بچہ حاجی صاحب سے نظر بچا کر اُن کا حلوہ کھا لے تو نسلی چور ٹھرتا ہے اور اُس کے ماں باپ کو تربیت کے اُصول سمجھائے جاتے ہیں۔

کُچھ عرصے سے یہ لت ہمارے عوام ور ریاستی اداروں میں اتنی شدید ہو گئی ہے کہ بات اب صرف تبصرہ اور مشورہ تک محدود نہیں رہی بلکہ اپنے کام چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کو اپنا فرض منصبی سمجھ لیا گیا ہے۔ بدلتے اور بگڑتے سیاسی، معاشی اور معاشرتی منظر نامہ کو جب دیکھتے ہیں تو دفاعی ادارے کاروبار کرتے نظر آتے ہیں، کاروباری لوگ سیاست میں ملوث ہیں، سیاستدان تجزیہ نگار بن چُکے ہیں، تجزیہ نگار پالیسی ساز بن چُکے ہیں، پالیسی سازوں کی طبیعت ناساز ہو چُکی ہے، عدلیہ بیوروکریسی کا کام کر رہی ہے، بیوروکریسی پتہ نہیں کیا کر رہی ہے۔

انصاف تو ہمیشہ سے اندھا تو تھا ہی مگر ان حالات میں لولا اور لنگڑا بھی ہو چُکا ہے اور اس جدید دور میں دفاع کا بھاری بوجھ تو ویسے بھی نوجوانوں کی نرم ونازک اُنگلیوں پر آن پڑا ہے۔ اب نوجوان بیچارے اپنے ناراض محبوب کی منت سماجت کریں کہ مشکلات میں گھری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت؟ ہمارے ادارے اور لوگ کیوں اپنے اپنے دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیوں میرے چیف جسٹس کو حکومت میں خرابیاں اور بیوروکریسی میں کمیاں تو نظر آتی ہیں مگر عدالتوں میں بڑھتی کیسوں کی تعداد نظر نہیں آتی؟ کیوں میرے دفاعی ادارے کاروبار کرنے کو بھی اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ میرا مُلک 20 سالوں سے دہشتگردی کے جہنم میں جل رہا ہے؟ کیوں ہمارے صحافی حضرات خبر نکالنے کی بجائے وزیر اعظم کو نکالنے کے درپے رہتے ہیں؟ کیوں ہماری بیوروکریسی کواپنی بے عزتی تو یاد رہتی ہے مگر سسکتے تڑپتے سائل نظر نہیں آتے؟

کیا ہوجائے گا اگر ہم سب اور ہمارے ادارے صرف اپنا اپنا کام کرنا شروع کر دیں گے؟ مطلب زیادہ سے زیادہ یہی ہو جائے گا نہ کہ مُلک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈل جائے گا اور ہمارا معاشرہ ایک مہذب معاشرے کے طور پر اُبھرے گا۔ کیا ہم سب کی خواہش نہیں کہ پاکستان کا ُشمار دُنیا کے معاشرتی اور معاشی طور پر ترقی یا فتہ مُمالک میں ہو؟ کیا ہم سب یہ نہیں چاہتے کہ رہتی دُنیا پاکستانی قوم کو ایک عظیم قوم کے طور پر اپنا رول ماڈل بنائے؟

کیا ہم نہیں چاہتے کے مُملکت خُدادا ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر اپنا وجود منوائے؟ اگر ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ مُملکت خداداد پاکستان اُس بچے کے دادا کی طرح ایک طویل دور ترقی اور فروانی اور معاشی و معاشرتی طور پر مضبوط گُزارے اور رہتی دُنیا کی تہذیب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے تو اُس کا اہم اصول بھی یہی ہے ہم سب اور تمام ریاستی اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسروں کی طرف تانک جھانک اور ٹانگ اڑانے کی روایت کو ختم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).