کیا ہمیں ایک عدد مارٹن لوتھر کی ضرورت ہے؟


\"12583700_10153817741167822_66780354_n\"انکوئزیشن (کلیسائی احتساب) کا پورا عہد اٹھا کر دیکھ لیں۔ یورپ نے کتنی لائبریریاں، کتنے مدرسے، کتنی کتابیں، کتنے اساتذہ اور کتنے طلبہ اس عہد میں زندہ جلائے۔ بقول ڈریپر(بحوالہ برق) صرف ایک یعنی پندرہویں صدی میں پوپ کی جانب سے زندہ جلائے جانے والوں کی تعداد سترہزار تھی۔ غرض جب کوئی قوم عہد تاریک سے گزررہی ہو تو اس کی دیگر نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے مذہبی انتہاپسند اپنے وقت کی لائبریریوں، مدرسوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، اساتذہ، طلبہ اور کتابوں کو جلانا شروع کردیتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ دہشت گرد کون ہیں۔ وہ کیوں ایسا کررہے ہیں اور ہم انہیں روک سکتے ہیں یا نہیں، سردست اگر فقط اتنی سی اینالوجی کو تسلیم کرلیا جائے کہ ہم بھی پندرہویں صدی کے یورپ کی طرح عہد تاریک سے گزررہے ہیں تو ہمیں کچھ نئے انداز میں اس مسئلے پر غور کرنے کا موقع ہاتھ آسکتاہے۔ مثلاً اگر ہم واقعی عہد تاریک سے گزررہے ہیں اور اگر واقعی ہمارے مذہبی شدت پسند طبقوں کے دہشت گرد ہماری یونیورسٹیوں کو اسی قانون ِ فطرت کے تحت جلارہے ہیں جو ایسے عہد تاریک میں قوموں کا نصیب رہا ہے تو پھر یہ کہنا کیوں درست نہ ہوگا کہ کسی سابقہ قوم کی داستان سے سبق لے کر اس مسئلے کا حل کیا جاسکتاہے۔ مثلاً ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پھر آخر اس عہد تاریک کا خاتمہ کس وجہ سے اور کیونکر ممکن ہوا جس کا سامنا لگ بھگ ایک ہزار سال تک یورپ کو شدت پسند مسیحیت کی وجہ سے تھا؟

جواب یہ ہے کہ وہاں پندرھویں صدی کے آغاز ہی میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے مذہب کی بالادستی کو بڑی قوت کے ساتھ چیلنج کیا۔ ان میں مارٹن لو تھر سرفہرست ہے۔ مارٹن لوتھر پروٹیسٹنٹ فرقے کا بانی ہے۔ پروٹیسٹنٹ کا مطلب ہوتاہے پروٹیسٹ کرنے والے۔ لوتھر خود ایک پادری تھا۔ لیکن عام آدمی کے خلاف چرچ کے مظالم سے تنگ آکر اس نے علم بغاوت بلند کیا اور سب سے پہلے اپنے ہی چرچ کے باہر ایک عبارت لکھ کر لگائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ،

’بائبل تحریف شدہ ہے اور اس کے احکامات کو چیلنج کرنا کوئی گناہ نہیں‘۔

مارٹن لوتھر کے آواز ا±ٹھانے کی دیر تھی کہ کلیسا سے تنگ، مخلوق ِ خدا جوق در جوق اس کی جماعت میں داخل ہونے لگی۔ کیتھولک عیسائیوں نے پروٹیسٹنٹس کو بہت مارا لیکن وہ پھر بھی بڑھتے گئے۔ امریکہ جانے والے ابتدائی انگریزوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا عرصہ حیات انگلستان میں محض اس لیے تنگ کردیا گیا تھا کہ وہ پروٹیسٹنٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکہ میں پروٹیسٹنٹ عیسائی، کیتھولک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

کیا عیسائیت کے تاریک دور سے ہم کوئی سبق لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں بھی کسی مارٹن لوتھر کی ضرورت ہے؟ اگر ہے تو پھر کیا وہ مارٹن لوتھر یہ کہے گا کہ معاذاللہ، ’قران تحریف شدہ ہے اور اس کے احکامات کو چیلنج کرنا کوئی گناہ نہیں؟‘۔ دوست، دشمن سب جانتے ہیں کہ قران کی عربی عبارت آج بھی وہی ہے جو رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی۔ لہٰذا مارٹن ل±وتھر والی بات کہنا تو ممکن نہیں۔ لیکن یہ کہا جاسکتاہے کہ قران کے مفاہیم، یا تراجم میں اس قدر اختلاف ہے کہ ان مفاہیم یا تراجم کو چیلنج کرنا کوئی گناہ نہیں ہونا چاہیے۔

یعنی لے دے کے بات تعلیم پر آکر ختم ہوتی ہے۔ کیا قرانی تعلیم ایسی ہے کہ جس میں قتل و غارت گری کی تبلیغ کی گئی ہے؟ اب دور ِ حاضر کا جدید مغربی سرمایہ دار ملحد ذہن مانتاہے کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ قران میں قتل و غارت کی تعلیم ہے۔ بعینہ اسی انداز میں دور حاضر کا نام نہاد مسلمان دہشت گرد بھی یہی مانتاہے کہ ایسا ہی ہے۔ ان دونوں کے درمیان اگر کوئی یہ بات نہیں مانتا کہ قران میں قتل و غارت گری کی تعلیم دی گئی ہے تو وہ عام مسلمان ہے۔ عام مسلمان اسلام کو محبت کا دین سمجھتاہے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو دہشت گردی یا قتل و غارت کا مذہب مانتے ہیں، درست کہتے ہیں یا وہ لوگ جو اسے امن کا مذہب مانتے ہیں درست کہتے ہیں؟ ظاہر ہے مجھ سمیت آپ سب کا جواب ایک ہی ہے کہ ہاں صرف وہی لوگ درست ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور رہ گئے دہشت گرد تو وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی کسی اور مذہب کے ماننے والے۔ وہ فقط دہشت گرد ہیں۔ بالکل ٹھیک۔ درست اور بجا۔

تو کیا جب عہد تاریک کے شدت پسند مسیحی یا پوپ یا پادری بائبل سے قتل و غارت کی تعلیم اخذ کرتے اور لوگوں کو زندہ جلا دیا کرتے تھے تو وہ سچے تھے یا اس وقت مارٹن لوتھر سچا تھا؟ یقیناً مارٹن لوتھر سچا تھا اور وہ عوام سچے تھے جو اس کے ساتھ مل گئے۔ اسی اینالوجی کے مطابق ہمارے عوام اور عام مسلمان بھی سچے ہیں اور ہمارے ظالم پادری اور ان کے چیلے جھوٹے ہیں اور ہمارے دشمن یعنی جدید مغربی سرمایہ دار ملحد بھی جھوٹے ہیں۔ اب اگر کوئی مارٹن لوتھر ہمارے ہاں بھی پیدا ہوجائے تو کیا ہوگا؟ بعینہ وہی ہوگا جو اس وقت ہوا تھا۔ یعنی ہمارے عوام جو دہشت گردوں کے مذہبی خیالات کو غلط سمجھتے ہیں اس پروٹیسٹنٹ کے ساتھ مل جائینگے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایسا مصلح آسانی سے پیدا ہوسکے جو پوری جرات کے ساتھ ملا کے مذہب کو جھٹلا سکے؟

جو یہ کہہ سکے کہ شدت پسند مذہبی غلط ہیں۔ قران کی وہ تشریحات قابل ِ قبول نہیں ہیں جو اِن شدت پسندوں نے کی ہیں۔ جو یہ کہہ سکے کہ اللہ کے رسول رحمت اللعلمین تھے۔ جو یہ کہے کہ’مولوی کا مذہب غلط ہے‘۔ جو یہ کہے کہ قران وحدیث اور سیرت کے نام پر مسجدوں میں فساد کی باتیں سکھانے والے دشمنان ِ دین ہیں۔ جو یہ کہے کہ مساجدِ ضرار کو گرا دو! جو یہ کہے کہ ذرا ذرا سی بات پر توہین مذہب کے قوانین سنت کے خلاف ہیں۔ جو یہ کہے کہ دوسرے مذاہب کا احترام لازمی ہے۔ جو یہ کہے کہ فتوے کی طاقت مذہبی پیشواو¿ں سے چھین لو! جو یہ کہے کہ خودکش حملہ آور حرام موت مرتے ہیں۔ جو یہ کہے کہ دہشت گرد بدترین کافر اور ملعون ہیں۔ جو یہ کہے کہ قرار داد مقاصد نہ صرف غلط دستاویز ہے بلکہ جمہوریت کی سب سے بڑی قاتل ہے۔ جو یہ کہے کہ اسمبلی کا کام فتوے جاری کرنا نہیں ۔ اسمبلی مسلم و غیر مسلم سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ جو یہ کہے کہ مذہب کے نام پر الیکشن لڑنا اور ووٹ دینا درست نہیں۔ جو یہ کہے کہ جنرل ایوب غدار تھا۔ جنرل ضیا غدار تھا۔ جنرل مشرف غدارتھا۔ جو یہ کہے کہ پاکستان مذہبی اسلامی ریاست نہیں بلکہ مسلمانوں کا ملک ہے جیسے مسلمانوں کے دوسرے ممالک ہیں۔ جو یہ کہے کہ دور حاضر میں سب سے اچھا نظام سیکولرازم ہے جس کے ثمرات اہل یورپ دیکھ رہے ہیں۔ جو یہ کہے کہ خلفائے راشدین کا نظام دور ِ حاضر میں صرف اقدار کی حد تک قابل مثال ہے، تفصیلات میں قابل عمل نہیں رہا،اور ہمارے سامنے اس کی کوئی حالیہ مثال موجود نہیں ماسوائے اس کے جو مولوی سناتے ہیں۔ جو یہ کہے کہ ملا جنت کا ٹھیکدار نہیں بلکہ جہنم کا داروغہ ہے۔ ایسا لکھنے اور کہنے والے میری طرح کے جنگلی دھتورے فیس بک پر بہت مل جائینگے۔ میں بات کررہاہوں ایسے لیڈر کی۔ ایسے رہنما کی جو کھلے مجمع میں ایسی تقاریر کرے اور ڈنکے کی چوٹ پر مذہب کے نام پر بولے گئے تمام جھوٹوں کا پردہ فاش کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments