مولانا محمد اسرار الحق قاسمی: صحافت وخطابت سے پارلیمنٹ تک


مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمیؒ ( 1942۔ 2018 ) ایک دینی واسلامی فکر کے حامل قلم کار اور کالم نگار تھے۔ آپؒ کے مضامین اسلامی افکار پر مشتمل ہوتے تھے۔ آپؒ کے مضامین کی زبان بہت سہل اور صاف ستھری ہوتی تھی۔ آپؒ کے مضامین قارئین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپؒ نے اپنے مضامین کے ذریعے ایک طویل مدت تک اسلامی احکامات وتعلیمات کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپؒ نے اپنی تحریر میں جہاں بہت سے قومی وملی مسائل کو اٹھائے وہیں اسلامی موضوعات پر لکھ کر، بطریق احسن اصلاحی ذمے داری بھی نبھاتے رہے۔ آپؒ جب جمعیت میں تھے ؛ تو دوسری خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ جمعیت کا ترجمان: ”الجمعیت“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ”الجمعیت“ کا ایڈیٹر رہتے ہوئے آپؒ نے بہت کچھ لکھا۔

آل انڈیا ملی کونسل نے جب اپنا ترجمان ماہ نامہ ”ملی اتحاد“ شروع کیا؛ تو مولاناؒ اس کے چیف ایڈیٹر منتخب ہوئے۔ بحسن وخوبی آپؒ نے یہ ذمہ داری نبھائی۔ آپؒ نے بہت سی مشغولیات کے باوجود بھی لکھنے کا سلسلہ بند نہیں کیا، بلکہ تادم واپسیں جاری رکھا۔ آپ ایک بہترین قلم کار ثابت ہوئے۔ اہل فکر ونظر بھی آپؒ کی تحریر کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ہندوستان کے تقریبا سارے اردو اخبارات اور ماہ نامے آپؒ کے مضامین چھاپتے تھے۔ آپؒ کے افکار وخیالات کی اہمیت کے پیش نظر، کبھی کبھی عربی وانگریزی جرائد ورسائل بھی آپؒ کے مضامین کا ترجمہ شائع کرتے تھے۔

مولاناؒ کے گہربار قلم سے جو تصانیف منظر عام پر آئیں، وہ حالات حاضرہ کے مشکلات کا حل پیش کرتی ہیں۔ آپؒ کی تصنیفات میں ”مسلم پرسنل لا اور ہندوستانی مسلمان“، ”معاشرہ اور اسلام“، ”اسلام اور مسلمانوں کی ذمے داریاں“، ”سلگتے مسائل“، ”ہندوستانی مسلمان: مسائل اور مزاحمتیں“ اور ”عورت اور مسلم معاشرہ“ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ اول الذکر کتاب اس وقت منظر عام پر آئی؛ جب آپؒ ”مدرسہ بدر الاسلام، بیگوسرائے“ کے ناظم تعلیمات تھے۔ آپؒ نے ہزاروں کالمز لکھا۔ اگر ان کالمز کو جمع کیا جائے ؛ تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔ اسلامی افکار وخیالات پر مشتمل آپؒ کے دینی وسماجی کالمز کو ضرور ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ان سے عوام وخواص ہر کوئی مستفید ہوں گے۔

آپؒ نے جس طرح ہزاروں کالمز لکھے، اسی طرح آپؒ نے عوام وخواص کے سیکڑوں مجمع کو خطاب کیا۔ آپؒ ایک بہترین عوامی خطیب تھے۔ آپؒ بہت سے مدارس وجامعات کے اجلاس اور عوامی اصلاحی پروگراموں میں بحیثیت خطیب مدعو کیے جاتے تھے۔ سامعین آپ کی تقریر بہت غور سے سنتے تھے۔ ان دنوں جب کہ آپؒ ایم پی تھے، پھر بھی لوگ آپؒ کو دعوت دینے کے لیے پہنچ جاتے۔ وقت اگر اجازت دیتا؛ تو آپؒ دعوت قبول کرتے اور پروگرام میں ضرور شریک ہوتے۔

آپؒ کی خوش اخلاقی، سادگی اور نرم گفتاری کی وجہ سے کسی بھی پروگرام کی انتظامیہ آپؒ کو مدعو کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ آپؒ بغیر کسی تفریق کے یکساں طور پر گاؤں، قصبے اور شہروں کے پروگراموں کی دعوت قبول کرتے اور ہر جگہ تشریف لے جاتے۔ کسی پروگرام میں آپؒ کی شرکت، عام طور پراس پروگرام کے کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ آپؒ کے دل میں اصلاح امت کے حوالے سے جو درد اور کڑہن تھی، اس وجہ سے اللہ نے آپؒ کے خطاب میں بہت اثر رکھا تھا۔

آپؒ چاہے پارلیامنٹ میں اپنی بات پیش کرتے یا کسی عوامی مجمع سے خطاب کرتے، آپؒ پورے اعتماد کے ساتھ بولتے۔ لوگ ایک قصبہ سے دوسرے قبصہ اور ایک شہر سے دوسرے شہر، آپؒ کی تقریر سماعت کرنے کے لیے جاتے تھے۔ آپ میدان خطابت کے شہسوار تھے۔ بندہ نے آپؒ کو پہلی بار، سن 2001 میں، دار العلوم، دیوبند کی دار الحدیث میں، ”سجاد لائبریری“ کے پروگرام میں، طلبۂ دار العلوم کو خطاب کرتے ہوئے سنا تھا۔

اگر انسان مخلص ہو؛ تو آج کے دور میں بھی سیاست کے میدان میں رہ کر، قوم وملت کی اچھی خدمت انجام دے سکتا ہے کیوںکہ ایک سیاسی رہنما کو ہر وہ اسباب میسر ہوتے ہیں جن کی عوامی خدمت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ آپؒ نے بھی قوم وملت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر، متعدد بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔ مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا؛ چنانچہ شکست آپؒ کا مقدر بنی۔ پھر سن 2009 کے عام انتخابات میں، ”کانگریس“ پارٹی نے آپؒ کی قومی وملی خدمات پر اعتماد کرتے ہوئے، آپؒ کو ”کشن گنج“ سے ٹکٹ دیا۔

پھر آپؒ نے 2009 کے عام انتخاب میں حصہ لیا۔ آپؒ ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوئے اورانتخاب میں فتح حاصل کرکے پارلیمنٹ پہنچے۔ سن 2014 ء میں، جب کہ پورے بھارت میں مسٹر مودی کی لہر تھی اور کانگریس حاشیے پر تھی۔ پھر بھی آپؒ کے حلقہ پر اس لہر کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ آپؒ نے بی جے پی کے امیدوار، ڈاکٹر دلیپ کمار جیسوال کو تقریبا دو لاکھ ووٹوں سے شکست دی۔

بحیثیت ایم پی آپؒ نے اپنے حلقہ کشن گنج میں ”علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی“ کی برانچ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ آپؒ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ مگر اس کام یابی کے پیچھے آپ کی قربانی پوشیدہ ہے۔ برانچ کے قیام کے لیے جتنی زمین کی ضرورت تھی، اس کے حصول کے لیے بہار حکومت کے سامنے آپؒ نے بہت منت سماجت کی۔ جب اس طرح سے کام نہیں چلا؛ تو آپؒ نے سیمانچل کے عوام کو دھرنا دینے پر تیار کیا۔ پھر 12 /اکتوبر 2010 کو سیمانچل کے عوام نے کشن گنج میں ”مہا دھرنا“ کیا اور تقریبا چار لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ تب جاکر، نتیش حکومت تقریبا 224 ایکڑ زمین دینے کو راضی ہوئی۔ پھر بہار وزیر اعلی مسٹر نتیش کمار، محترمہ سونیا گاندھی اور متعدد علاقائی سیاسی وسماجی رہنماؤں کی موجودگی میں، برانچ کا سنگ بنیاد ڈالا گیا۔

صدمے اٹھائے، رنج سہے، گالیاں سنیں۔ لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام

مختلف پلیٹ فارمس سے مولاناکی نصف صدی کی سماجی، سیاسی، ملی وقومی خدمات کے دوران، مختلف میدان کے لوگوں سے شناشائی اور اچھے تعلقات رہے۔ مگر آپؒ نے کبھی بھی ان تعلقات کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے اہل خانہ کے مفاد کی خاطر استعمال نہیں کیا۔ آپؒ خود کئی اہم عہدے پر فائز رہے، مگر ان کا کوئی اثر آپؒ کی زندگی میں نظر نہیں آیا۔ آپؒ نے پوری زندگی سادگی کے ساتھ گزاری۔ ہمیشہ آپؒ کا وہی طرز خطاب رہا جو شروع سے تھا، وہی لباس وپوشاک جو شروع سے تھا اور وہی رہن سہن جو پہلے تھا۔ لوگوں کو یہ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ان کی طرزِ زندگی پہلے ویسی تھی اور اِس عہدہ پر آنے کے بعد ایسی ہوگئی۔ شاید آپؒ نے اپنی زندگی کا اصول ہی بنا لیا تھا ”سادہ زندگی اور بلند فکری“۔

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل۔ اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز

آپؒ نے تزکیہ واصلاح کے حوالے سے اوّلا مفتی مظفر حسین صاحبؒ، سابق ناظم مظاہرعلوم (قدیم) سے تعلق قائم کیا۔ مفتی صاحبؒ نے آپؒ کو خلافت سے نوازا۔ پھر ان کی وفات کے بعد، آپؒ شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی (حفظہ اللہ) سے منسلک ہوئے۔ شیخ الہ آبادی نے بھی آپؒ کو خلافت سے نوازا۔ آپؒ کے ان شیوخ نے آپؒ کی اس طرح تربیت کی کہ لوگوں نے شاید ہی کبھی آپؒ میں عجب، خود پسندی، تکبر وغیرہ کا مشاہدہ کیا ہو۔ آپ نے بہت کامیاب زندگی گزاری۔ واضح لفظوں میں آپؒ نہایت سادہ، متواضع اور قوم وملت کے مخلص خادم ثابت ہوئے۔

آپؒ نے مختلف میدانوں میں میں کام کیا اور ہمیشہ ملت اسلامیہ کی بقا وتحفظ کی کوشش میں پیش پیش رہے۔ آپؒ کی خدمات کو اہل نظر وفکر نے سراہا۔ آپؒ کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور اظہارِ عقیدت کے لیے مختلف ادارے اور جامعات نے آپؒ کو رکنیت سے نوازا۔ آپؒ اپنی مادرعلمی دار العلوم، دیوبندکے رکنِ شوری، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے کورٹ ممبر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قابل قدر رکن، ملی کونسل کے نائب صدر اورآل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی وصدر تھے۔ عوام نے آپؒ کو دو بار منتخب کرکے، پارلیمنٹ بھیجا۔ آپؒ ان کے علاوہ متعدد مدارس ومکاتب کے نگراں وسرپرست تھے۔ آپؒ نے قوم وملت کی تقریبا نصف صدی تک خدمات کی۔ اللہ تعالی اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).