سو سال بعد کا پاکستان


یہ نصف صدی کا نہیں، پوری صدی کا قصہ تھا۔ 1996 میں امریکی مصنف لی رٹلج کی کتاب “جب میری دادی ایک بچی تھی” شائع ہوئی۔ مصنف نے بیسویں صدی کے طلوع ہونے کے وقت امریکا کی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالت کا ایک اجمالی جائزہ لکھا۔ امریکا آج بھی انسانی حقوق، معاشی مساوات اورعمرانیات کے حوالے سے بہت سے اشاریوں میں مہذب متمدن دنیا میں بہت اعلی مقام نہیں رکھتا مگر سو سال پہلے کا امریکا ایک عجیب ہی سرزمین تھا۔

یقین کرنا مشکل ہے کہ سو سال پہلے امریکا میں پندرہ سے زیادہ ریاستوں میں سیاہ فام اور سفید فام قانونی طور پر شادی نہیں کر سکتے تھے۔ یہی قانون کچھ ریاستوں میں عیسائی اور غیر عیسائی جوڑوں پر بھی لاگو تھا۔ خواتین کو رائے دہی کا حق نہیں تھا۔ یونیورسٹی اور کالج میں عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ کئی ریاستوں میں عورت کو جائیداد کا مختار ہونے کا حق نہیں تھا۔ مزدوروں کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ کم ازکم اجرت کا کوئی قانونی معیار نہیں تھا۔ سیاہ فام اور سفید فام ایک سکول میں پڑھتا نہیں سکتے تھے۔ ایک ہی نلکے سے پانی نہیں پی سکتے تھے۔ ایک ہی غسل خانہ استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

سفید فام جتھے آئے دن سیاہ فاموں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرتے تھے اور کسی کو سزا نہیں ہوتی تھی۔ کو کلکس کلان جیسی نسل پرست تنظیمیں نہ صرف قانونی تھیں بلکہ ان کے حامی ایوان نمائندگان میں موجود تھے۔ کچھ ریاستوں کے گورنر باقاعدہ اس تنظیم کے رکن تھے۔ کئی ریاستوں میں سیاہ فام اور غیر عیسائیوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ہم جنسیت قانونی طور پر جرم تھا اور ہم جنس شدید ترین معاشرتی مقاطعہ کا شکار تھے۔ عورتوں کو طبی پیچیدگی میں بھی اسقاط حمل کا حق حاصل نہیں تھا۔ عورتوں کی تنخواہیں قانونی طور پر مردوں سے کم تھیں۔ اکثر شعبہ جات میں خواتین کو سرے سے کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اکثر کھیلوں میں حتی کہ میراتھان دوڑوں میں بھی عورتوں کو حصہ لینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ریاست یا وفاق میں  خواتین  ایوان نمائندگان کی اہل نہیں تھیں۔

گھریلو تشدد جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خواتین کو مانع حمل ادویات یا طریقوں تک رسائی کی اجازت نہیں تھی۔ میریٹل ریپ جیسے الزامات ہنسی میں اڑا دیے جاتے تھے۔ بچے فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ اقلیتوں کے لیے مذہبی آزادی مفقود تھی۔ پڑھتے چلے جائیے۔ ایسی ایک طویل فہرست ہے۔ سر اٹھائیے، آج کے امریکا پر نظر ڈالیے، یقین نہیں آئے گا کہ انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے حوالے سے یہی ملک صرف سو سال پہلے کیسے عمیق اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ظلم اور زیادتی کے ہر ضابطے کو قانونی، معاشرتی اور مذہبی تائید اور تحفظ میسر تھا۔

میں اپنے ملک کا سوچتا ہوں  سو سال پہلے وطن عزیز تو موجود نہیں تھا پر آج سے سو سال بعد اگر یہ موجود ہوا تو ہو سکتا ہے کوئی مصنف، کوئی محقق، کوئی تاریخ دان ماضی کے دروازے کو کھول کر ہماری آج کی دنیا پر نظر ڈالے۔ سوچیے کہ وہ کیا لکھے گا۔

وہ لکھے گا کہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے، سو سال پہلے 2018 میں حالات یہ تھے کہ ملک کی ستر فی صد آبادی ناخواندہ تھی۔ ساٹھ فی صد آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں تھا۔ بیروزگاری عروج پر تھی۔ عالمی حقوق دانش میں ساجھے داری صفر تھی۔ برآمدات اور درآمدات میں کوئی توازن نہیں تھا۔ روپے کی قدر میں مستقل گراوٹ تھی۔ نہ کوئی سائنسی ایجاد تھی نہ کوئی نظریاتی پیش رفت پر قوم کی اجتماعی دانش ان سب باتوں سے بے خبر اور کاموں میں الجھی ہوئی تھی۔

اقلیتوں کو اس حد تک زچ کیا جا رہا تھا کہ ملک سے فرار ان کا واحد راستہ تھا۔ ہندو بچیوں کو اغوا کر کے مسلمان کیا جاتا تھا اور جب نابالغوں کے تبدیلی مذہب پر قدغن لگنے کی بات ہوتی تو سب علماء اس کے خلاف تلوار سونت کر باہر نکل آتے۔ پر یہی علماء جو ایک سانس میں تبدیلی مذہب کے علم بردار تھے۔ یہ فتویٰ بھی اسی سانس میں دیتے کہ اسلام میں تبدیلی تو ہو سکتی ہے، اسلام سے تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ قوانین پر مذہبی چھاپ تھی۔ برادری سے باہر شادی کرنے پر قتل وغیرہ عام سی بات تھی۔ غیرت کے نام پر قتل تو روزمرہ تھا حتی کہ حکومتی وزرا ایوان میں اس کا تحفظ کرتے تھے۔ ساتھ ہنسنے گانے جیسی بات پر مرد قتل ہو جاتے تھے اور عورت زندہ مدفون۔

مسلمان عورت کو غیر مذہب میں شادی کا حق نہیں تھا تاہم مسلمان مردوں کے لیے خصوصی رعایت تھی۔ ایوان نمائندگان لوگوں کا ایمان ناپ تول کر فیصلہ کرتا تھا کہ کس گروہ پر کیا ٹھپہ لگ سکتا ہے اور کس گروہ کو کون سے دائرے سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ بہبود آبادی کے نظریے کو کفر سمجھا جاتا تھا اور مانع حمل طریقوں کو شیطان کا کارخانہ۔ سکولوں سے زیادہ تعداد مذہبی مدارس میں زیر تعلیم تھی جن کی تربیت میں لچک، آزادی اظہار اور آزادی فکر کا کوئی گزر نہیں تھا۔

مذہبی منافرت عروج پر تھی۔ جن تنظیموں کو دنیا دہشت گرد سمجھتی تھی انہیں ملک کے ارباب اقتدار اور عوام سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ عالمی سطح پر کوئی بھی مثبت تشخص اجاگر کرنے والے لوگ جلاوطن کر دیے جاتے تھے اور انہیں ہیرو کے بجائے سازشی، کٹھ پتلی اور ڈرامہ قرار دیا جاتا تھا۔ ہم جنسیت کو بیماری اور جرم سمجھا جاتا تھا پر بچوں سے ہوئے جنسی جرائم پر کوئی دوسری نظر ڈالنے کا روادار نہیں تھا۔ میریٹل ریپ کو کوئی جرم نہیں سمجھتا تھا۔ گھریلو تشدد کے خلاف بل کو خلاف مذہب کہہ کر رد کر دیا جاتا تھا۔

اسکولوں میں جنسی آگاہی کی تعلیم ممنوع تھی تاہم مذہبی تعلیم پر اس حد تک زور تھا کہ حیاتیات کی کتاب میں نظریہ ارتقا کو غلط کہا جاتا تھا اور طبعیات کی کتاب میں بگ بینگ کو۔ اکثر کاروبار ہائے زندگی میں عورتوں کی شراکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بچیوں کو کالج اور یونیورسٹی بھیجنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ خواتین کا پردہ ایک معاشرتی جبر سے آگے بڑھ کر معاشرتی تشخص بن گیا تھا۔ نظام انصاف ہزارہا خامیوں کی آماجگاہ تھا پر سزائے موت پر پابندی نہیں تھی۔ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں سے زیادہ اعتقاد پیروں اور مجاوروں پر تھا۔ دعا کو دوا سے بہتر مانا جاتا تھا۔ قوانین کی تشکیل کے لیے مذہبی علماء سے رائے طلب کرنے کا چلن عام تھا۔ توہین مذہب جیسے الزام میں لوگ نہ صرف پھانسی پر لٹکا دیے جاتے تھے بلکہ سر عام قتل بھی کر دیے جاتے تھے اور اس عمل کی حمایت کرنے والے کھلے عام گھومتے تھے، سیاست میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے بلکہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر ان ہی کا غلبہ تھا۔

مذہبی آزادی مفقود تھی۔ الحاد اور تشکیک کا ہی نہیں، کسی بھی غیر سرکاری مذہب کا پرچار ناممکن تھا۔ تفریح کے مواقع میسر نہیں تھے اور جو میسر تھے ان پر ایک سو چالیس سال قبل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ جمہوریت کے پردے میں کٹھ پتلیاں نچانے کا کاروبار زوروں پر تھا۔ کچھ ادارے تقدس کے ایسے پردے میں لپٹے تھے کہ ان پر بات کرنا حرام تھا۔ تنقید کرنے والے رات کی تاریکی میں ہی نہیں، دن کی روشنی میں بھی مفقودالخبر ہو جاتے۔ رائے دہی برادری، پیسے اور مذہب کی بنیاد پر ہوتی۔ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ضرور تھا پر ان کی شراکت بیس فی صد سے زائد نہ تھی۔

مردوں کو چار چار شادیوں کی اجازت تھی اور کوئی عائلی قوانین ان کے پیروں کی زنجیر نہ تھے۔ ریپ اور باہمی رضامندی سے قائم ہوئے جنسی تعلقات ایک جیسے جرم تھے۔ ریاست شخصی آزادی میں مداخلت کے ہر حربے کی قائل تھی۔ عورتوں کو وراثت میں زیادہ سے زیادہ نصف حصہ ملتا تھا پر یہ نصف حصہ بھی اکثر اوقات غصب ہو جاتا اور کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی۔ بچیوں کی شادیاں بسا اوقات ان کی مرضی کے بغیر کر دی جاتیں۔ ونی، سوارا اور کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون کے ہوتے ہوئے بھی یہ رسومات عام چلن تھیں۔ فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سر منبر لوگوں کو خلاف عقل روایات بیچی جاتیں۔ انہی منبروں سے قتل کے فتاوی جاری ہوتے۔ عقل کی بات کرنے والے مطعون ہوتے اور حریت فکر کی بات کرنے والے شیطان کے ہرکارے کہلائے جاتے۔

ایسی کتنی ہی اور باتیں ہیں جنہیں سو سال بعد لکھا جائے گا۔ پر یہ سوچیے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن پر پریشان، حیران اور افسردہ ہونے کے لیے آج کے انسان کو سو سال انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کا مہذب انسان بھی ان رویوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم کسی اور گزری ہوئی صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ اور اس صدی کی ہوا میں زہر گھلا ہے۔ یہ زہریلی فضا پیغام مرگ ہے جسے ہم سانس سانس اپنے اندر اتار رہے ہیں تو یہی چلن رہا تو ایک صدی بعد موازنہ نہیں ہو گا بس  ایک فنا ہو چکی قوم کی تاریخ لکھی جائے گی۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad