انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ملی ادارے


انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر نئی دہلی میں مولانا اسرار الحق قاسمی رح ممبر پارلیمنٹ، ممبر شوریٰ دارالعلوم دیوبند صدر کل ہند ملی تعلیمی کونسل اور مرحوم پروفیسر مشیرالحسن ممتاز تاریخ داں سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس دارفانی سے رحلت پر ایک تعزیتی پروگرام میں حاضرین کی قلت کا اصل سبب منتظمین کی طرف سے مرحومین کے متعلقین، منتسبین اور بالعموم دہلی کی عوام کو دعوت نامہ یا اشتہار کا نظم نہیں کرنا تها۔ اس ضمن میں اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار آرٹس IGNCA ، انڈیا ہیبیٹیٹ سنٹر IHC اور انڈیا انٹرنیشنل سنٹر IIC کے طریقہ کار کا ذکر بطور موازنہ بے جا نہیں ہوگا۔ اتفاق سے آج صبح IGNCA کا دعوت نامہ میرے میل پر آیا ہے ۔ اس دعوت نامہ کے مضمون اور اس کے ساتھ وہاں پہنچنے کے سلسلے میں مطلوبہ معلومات فراہم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آپ کو مدعو کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں، آپ کی شرکت کے کس قدر متمنی ہیں ان کا عملہ کس قدر فرض شناس ہے اور جدید ترین ذرائع ابلاغ جو بسہولت انگلیوں کے پوروں پر میسر ہیں ان کا مفید استعمال کس طرح کر رہے ہیں۔ رابطہ نمبر، جائے وقوع کا نقشہ ، وہاں جانے والی سڑکیں وہاں سے گزرنے والی بسیں ، میٹرو روٹ ، پارکنگ کے لئے مخصوص جگہ کی نشاندہی وغیرہ وغیرہ۔ ۔
میری شرکت مذکورہ بالا اداروں کے مختلف پروگرامز میں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے جس طرح بعض ملی اداروں کے بعض پروگرام میں اگر دعوت ملے تو ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اس موازنہ کی طرف ذہن گیا کہ کس قدر فرق ہے مسلم اداروں کی سوچ میں اور ان سرکاری نیم سرکاری اور غیر مسلم اداروں کی سوچ میں۔ اور جب مسلمانوں کے ٰ تعلیم یافتہ ذمہ داران اور ان کے کارندوں کا یہ حال ہے تو عام مسلمانوں کی بے خبری کا عالم کیا ہوگا !
بات تھوڑی تلخ ہے مگر مبنی بر حقیقت نہیں تو مبنی بر مشاہدہ ضرور ہے( یہ وضاحت اس لئے ضروری سمجھا کہ ممکن ہے بعض لوگ صفائی پیش کریں) ۔

ہندوستانی مسلمانوں کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا بھر کی مختلف قومیتیں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ طبقات نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ عہد کیا کہ ہم ترقی یافتہ قومیتوں سے اگر آگے نہیں بڑھ پائیں گے تو قدم سے قدم ملا کر ضرور چلیں گے۔ I۔ T revolution نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا جہاں ہر شخص ایک دوسرے کی ہر نقل و حرکت ؛ کھانا ، پینا، پہننا، تعلیم ، صحت، کھیل کود ، زراعت ، صناعت اور تجارت سے واقف ہوتا ہے اور یہی واقفیت مقابلہ کرنے اور آگے نکلنے کے جذبے کو جلا بخشتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مسلمانوں میں اس طرح کی روش نہیں پائی جاتی ہے۔ K2 یعنی الفیہ ثانیہ کی آمد آمد پر اقوام متحدہ سے لے کر ہر ملک اور ہر ملک کی مختلف تنظیموں اور تهینک ٹینک Think Tank نے اس نئے دور کو پورے جوش و خروش سے خوش آمدید کہا اور اس مابعد 2 K دور میں روشن مستقبل کے لئے نئے نئے منصوبے بنائے ہدف متعین کئے اور عہد و پیمان کئے یہ اور بات ہے کہ مسلم ممالک کو اس سے مستفید ہونے کے خواب کو 9/11 سازش یا سوء تقدیر نے چکنا چور کر دیا اور ساری توانائی دہشت گردی کے الزام کی دفاع میں لگانی پڑی اور آج تک اسی میں الجهے ہیں۔ ۔ ۔ مگر ہندوستانی مسلمانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے  استفادہ کرنے سے کس نے روکا؟ ظاہر ہے تعلیم کی کمی نے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہم دوسروں کے شانہ بہ شانہ چلنے سے قاصر ہیں ۔ جب اسمارٹ کلاسز ایک گھسی پٹی چیز ہو گئی تو ہمارے بعض مسلم اسکول شروع کر رہے ہیں e-commerce سے دس پندرہ سالوں تک لوگوں نے کمائی کر لی تو ہمیں اس کی برق رفتار افادیت کا احساس ہوا کہ گھر بیٹھے ہم بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔ آن لائن کی سہولیات کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان باتوں میں عمومیت نہیں ہے اس میں استثناء سے انکار نہیں ہے۔
تاہم اسے بھی المیہ ہی کہیں گے کہ دنیا کی قومیتوں نے اعلان کیا کہ sky is the limit مگر ہم پہاڑوں کی چٹانوں پر پہنچنے کا حوصلہ تک کهو بیٹھے یا اس حد تک پرواز کا سوچا ہی نہیں۔ وہ clockwise دوڑ رہے ہیں جبکہ ہماری ملی تنظیموں کی رفتار anti clockwise ہے۔ دوسری قومیتیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی نئی ایجادات سے فائدہ اٹھارہی ہیں جبکہ ہم جو سو سالہ قدیم وسائل غنیمت تھے اسے بھی ختم کردیا۔ لیتھو پرنٹنگ سے آفسیٹ اور آفسیٹ کے بعد ایک دم سے کمپیوٹر بیسڈ بہت ساری سہولیات میسر ہو گئیں اور سیکنڈز میں ، چہار دانگ عالم میں، آپ کی خبر لوگوں تک اور لوگوں کی خبر آپ تک پہنچنے اور پہنچانے کا وقت آیا تو اردو اخبارات بند ہو گئے! جمعیت علماء کا روزنامہ “الجمعیة” بند ہوا جماعت اسلامی کا روزنامہ “دعوت” بند ہوا یا غیر جانبدار معیاری اخبار کی دوڑ میں دونوں پیچهے رہ گئے اور کیوں نہیں جب دونوں اخبار اور اخبار نکالنے کے ذمہ دار حضرات نے کبهی کمرشل انداز پر کام کرنے کا نہیں سوچا، صحافیوں اور عملہ کی خاطر خواہ قدر نہیں کی۔

ملی تنظیموں کا استحصالی نظام قائم رکها جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس پارٹی کا آرگن اور ماؤتھ پیس ہوتے ہوئے بهی “قومی آواز” ملک کی کئی ریاستوں سے بیک وقت شائع ہونے لگا اور ایک معیاری اخبار کا درجہ پایا۔ ایڈیٹر عشرت علی صدیقی مرحوم کے اداریہ کا لوگوں کو انتظار رہتا جو محدود ذرائع ابلاغ (ٹیلی پرنٹر) کے توسط سے ہر ایڈیشن میں بیک وقت شائع ہوتا تها۔ وہ بهی بند ہوا تو خالص کمرشیل بنیاد پر غیر مسلم کارپوریٹس نے روزنامہ “سہارا اردو” نکالا اور دینک جاگرن گروپ نے اردو روزنامہ ” انقلاب ” کو خریدا اور اب یہ دونوں کل ہند سطح کے اخبار کے طور پر خالص تجارتی بنیاد پر شائع ہو رہے ہیں۔
بیشتر ملی اداروں کا نا کوئی نیوز بلیٹن نا کوئی ریگولر سرکلر اور نا ہی اپ ٹو ڈیٹ ویب سائٹس ہیں۔ ان اداروں کا ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے جس کے توسط سے ان کی اپنی عوام /اپنے نمائندوں سے حقیقی طور پر رابطہ استوار رہے۔ ان کی میٹنگز میں یہ بهی نہیں ہوتا کہ ہر ماہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ملک کے مختلف اضلاع میں اور خاص طور پر متاثرہ علاقوں میں جو ان کے نمائندے ہیں ان سے فیڈ بیک لیں اور اس کے بعد قرارداد پاس کریں اور ان کو آگاہ کریں۔ دارالحکومت دہلی میں چند ذمہ داروں کی نشست اور خیالات کی بنیاد پر کوئی قرارداد منظور کر کے لوگوں پر مسلط impose کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ اب ہوائی جہاز یا ریل کے ٹکٹ اور ہوٹل میں قیام کے اخراجات کی بجائے ویڈیو کانفرنسنگ کا زمانہ ہے یعنی نئے وسائل سے مستفید ہونے کا دور ہے۔
علماء ، فقہاء اور دینی مدارس کے طلباء کے لئے معتبر سائٹس ہیں جہاں قرآن تفسیر احادیث اور فتاوے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مشہور شعراء کے دیوان ، مجموعہ کلام اور افسانوں کے مجموعے وغیرہ key words، index ، مضمون، ابواب ، صفحات و آیات کے حوالہ جات کی سہولیات کے ساتھ جمع کردیئے گئے ہیں ۔ لائبریریوں کے چکر لگانے اور کسی ایک موضوع پر کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے بیسیوں کتابوں کی ورق گردانی کرنے اور گھنٹوں وقت لگانے سے بچنے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے بشرطیکہ ہم ان نئی ایجادات سے آشنا ہوں اور ہمیں ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہو۔ وقت کے ساتھ اگر ہم نہیں چلے تو وقت ہمیں پیچھے چھوڑ دے گا۔

دعوت و تبلیغ کے کام کے لئے مختلف مذاہب کے دانشور داعی اور مبلغین ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر لوڈ کر رہے ہیں۔ سدگرو وغیرہ عالمی انسانیت کا پیغام اور اس پر ان کے مذاہب کا نظریہ پر مبنی لیکچرز کی آڈیو ویڈیو سوشل میڈیا پر چلا رہے ہیں۔ اسلام کا عالمی اخوت اور انسانیت کا پیغام سب سے زیادہ واضح اور موثر ہے کیا اسے لے کر ہم عالمی برادری تک پہنچ پا رہے ہیں ؟ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں نا صرف غیرمسلموں بلکہ بہت سے مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اس کے ازالہ کا بہترین ذریعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے اب اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اسے نعمة سمجھیں یا نقمة boon or bane۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).