کیا قبریں بھی چوری ہوتی ہیں؟


ہمارے صحافی دوست ذیشان کاظمی بحریہ ٹاون میں رہتے ہیں، وہ میرے پاس تشریف لائے اور اپنے پڑوس میں پیش آنے والا ایک درد ناک واقعہ میرے ساتھ شیئر کیا۔ کہنے لگے کہ پاراچنار سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، وہ لوگ پارا چنارا سے آکر راولپنڈی میں نئے نئے آباد ہوئے تھے، لواحقین نے راولپنڈی میں ان کی تدفین کرنا چاہی لیکن تین دن کے تکلیف دہ کوشش کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور بالآخر وہ مایوس ہو کر میت کو پارا چنار لے جانے پر مجبور ہوئے، وجہ یہ تھی کہ جس قبرستان میں بھی جاتے وہ جگہ نہ ہونے کا عذر پیش کرتے۔

کئی ایک قبرستان کے منتظم حضرات نے یہاں کا مستقل رہائشی نہ ہونے کی بنا پر بھی قبرستان میں دفن کرنے سے معذرت کی، ذیشان کاظمی نے بتایا کہ وہ بحریہ ٹاون میں سالوں سے رہ رہے ہیں، بحریہ ٹاون میں کوئی مستقل قبرستان نہیں ہے، صرف چالیس قبروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا قبرستان ہے جو کہ کئی سال پہلے کا بھر چکا ہے جس میں بعد ازاں پارکنگ کی جگہ شامل کر کے اسے توسیع دی گئی تو بمشکل اس میں مزید چالیس قبروں کی جگہ بن پائی، بحریہ ٹاون کا معیار زندگی اور ان کی ماسٹر پلاننگ کو دیکھتے ہوئے میرے لئے یہ سب باتیں حیران کن تھیں کیونکہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون کو ہر حوالے سے ایسا بنایا ہے کہ جس کی داد دیے بغیر بندہ رہ نہیں سکتا، بحریہ ٹاون کی کشادہ سڑکیں، رہائشی مکانات کی ترتیب، مارکیٹس، مسجدیں، پارکس حتیٰ کہ انٹرٹینمنٹ کے لئے سینما کا خیال بھی رکھا گیا لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ قبرستان کے لئے آبادی کے لحاظ سے جگہ مختص نہیں کی گئی۔

ذیشان کاظمی کے توجہ دلانے کے بعد میراذہن اس بات پر اٹک کر رہ گیا کہ جو لوگ گاؤں دیہات سے اپنے مکانات اورزمینیں بیچ کر شہروں کے ہو کر رہ گئے ہیں انہیں اپنے پیاروں کی تدفین میں کن مسائل کا سامنا ہوتا ہو گا؟ قدیم قبرستانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ان میں جگہ بالکل نہیں ہے، ایک صاحب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قدیم قبرستانوں میں قبریں چوری بھی ہوتی ہیں۔ یہ میرے لئے حیران کن بات تھی، میں نے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے اورکوئی ایسا کیوں کرے گا؟ اس صاحب نے بتایا کہ جو قبریں بہت پرانی ہو جاتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے لواحقین میں سے کوئی نہیں آتا تو قبرستان کے منتظمین نئے آنے والوں کو وہی جگہ کچھ قیمت پر فروخت کردیتے ہیں۔ میرے سوال پر اس صاحب نے بتایا کہ ایک قبر کی جگہ کی قمیت عام طور پر 50 ہزار روپے وصول کی جاتی ہے۔

اسلام آبادمیں دو قبرستان آج سے کئی سالوں پہلے ماسٹر پلان کے تحت بنائے گئے تھے ان میں سے ایک قبرستان میں جگہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسرے قبرستان میں بھی عنقریب گنجائش کم ہو جائے گی۔ یاد رہے اسلام آباد کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو اسلام آباد آج سے چند سال قبل 10 لاکھ کی آبادی والا شہر سمجھا جاتا تھا آئندہ آنے والے دس سالوں میں ممکن ہے اسلام آباد کی آبادی 50 لاکھ سے تجاوز کر جائے کیونکہ دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رخ دیگر شہروں کی نسبت اسلام آباد کی طرف زیادہ ہے۔

سو اس لحاظ سے قبرستان کم پڑتے دکھائی دیتے ہیں جس کا سی ڈی اے کو بخوبی اندازہ ہو چکاہے یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے قبرستانوں میں تدفین کے لئے پہلے شناختی کارڈ میں اسلام آباد کا ایڈریس چیک کیا جاتا تھا اب اسلام آباد میں ملکیتی گھر کا پوچھا جاتا ہے یعنی اگر تو مرنے والے یا اس کے لواحقین کا اسلام آباد میں ذاتی گھر ہے تو وہ اسلام آباد کے قبرستان میں تدفین کا حق رکھتا ہے اگر اسلام آباد میں اپنا ذاتی گھر نہیں ہے تو اس کے لئے اسلام آباد کے قبرستان میں تدفین کے لئے جگہ نہیں مل سکتی۔

مجھے ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ قبرستانوں سے نوجوان تازہ مردوں کی لاشیں بھی نکال لی جاتی ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مختلف ہسپتالوں کو مردوں کی لاشیں فراہم کرکے ان سے قیمت وصول کی جا سکے، اس دھندے میں زیادہ تر قبرستان کا عملہ ملوث ہوتا ہے۔ اگر ہم راولپنڈی، لاہور، کراچی یا اس طرح کے گنجان آبادی والے شہروں کی بات کریں تو ہر کچھ عرصہ کے بعدایک ایک قبر پر کئی قبریں بن جاتی ہیں، ایسی باتوں کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کئی وارث خدشات کی وجہ سے قبرستانوں کے عملہ کو ماہانہ اخراجات دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے پیاروں کی قبروں کی دیکھ بھال اور ان کا خیال رکھیں۔

قبرستانوں کے مسائل پر کام کرتے ہوئے چند ایک تلخ حقائق بھی ہمارے مشاہدے میں آئے جنہیں احتیاط کے پیش نظر یہاں بیان نہیں کیا جا رہا لیکن ایک بات جس کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار نے قبرستانوں کے مسائل پر توجہ کیوں نہیں دی، بحریہ ٹاون سمیت کسی بھی ہاوسنگ سوسائٹی کو جب این او سی جاری کیا جاتاہے تو ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ سوسائٹی میں قبرستان کے لئے کتنی جگہ مختص کی گئی ہے، کئی شہروں کے قبرستانوں میں تدفین کے لئے جگہ خریدنی پڑتی ہے جس پر 50 ہزار یا اس سے زیادہ کی لاگت آتی ہے۔

جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں ان کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن غریبوں کے لئے مرنا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا کیونکہ قبر کی خریداری سے لے کر تجہیز تکفین میں لاکھ روپے سے زیادہ کے اخراجات آتے ہیں اور جن کا کمانے والا ہی وفات پا جائے وہ اپنے پیارے کی تجہیز وتکفین کیسے کریں گے؟ اب جبکہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے تو آئند ہ آنے والے سالوں میں قبرستانوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا کیا حکومت نے اس طرف بھی توجہ دی ہے یا لوگ اپنی میتوں کو لے کر یونہی پھرتے رہیں گے اور جگہ نہ ملنے پراپنے آبائی گاؤں کا رخ کرنے پر مجبورہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).