وقاص احمد خا ن کے بارے میں کچھ مزید!


1995 میں جہاد کشمیر کے لیے ایک تربیت گاہ میں تھا اور مصمم ارادہ تھا کہ اب کے کشمیر کو آزاد کروا کے دم لینا ہے۔

کیمپ ایک جنگل میں تھا۔ ایک دن ایک مجاہد بھائی آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کو کچھ لوگ ملنے آئے ہیں ۔

میں حیران کہ اس کیمپ تک میرے جاننے والاکوئی کیونکر پہنچ سکتا ہے۔ میں کیمپ کمانڈر کی اجازت سے آخری پوسٹ کی جانب گیا جو استقبالیہ بھی تھی۔

ملاقات کے لیے دس منٹ دیے گئے تھے۔

 وہاں وقاص میری تلاش میں، دو دوستوں صفی اللہ اور محبوب حسین کو لیکر پہنچ چکا تھا۔

میں نے روکھے لہجے میں سلام دعا کی۔

وقاص نے کہا ’چل تجھے لینے آئے ہیں‘

میں نے طنزا کہا یہاں آنے کا راستہ ہے جانے کا نہیں۔

’تیری تو میں جہاد کی ۔۔۔ ‘ وقاص غصے میں آ گیا۔

پہاڑوں میں مسلسل سفر کی وجہ سے اس کے گھٹنے چھل چکے تھے۔ بری طرح تھکن غالب تھی۔ اور اوپر سے میرے روکھے لہجے نے اس کے ضبط کے بندھن توڑ دیے۔

صفی اور محبوب نے بیچ بچاﺅ کرایا اور وقاص کو ایک سائیڈ پر لے جا کر کچھ گٹ مٹ کی۔

واپس آئے تو وقاص نارمل تھا۔ کہنے لگا ، دیکھ حرامی تیرے باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔ ابھی آ جا پھر واپس آ جانا۔ وہ تمھیں یاد کر رہے ہیں

مجھے وقاص کی زبان سے ادا کیا لفظ حرامی اس ’مقدس ماحول ‘ میں گولی کی طرح لگا۔

میں پھر غصے میں آیا اور کہا، ’خبردار جو تم نے یہاں کوئی غلیظ لفظ زبان سے نکالا۔ تمھیں کیا پتہ دین کیا ہوتا ہے اور اخلاقیات کیا ہوتی ہیں ‘

وقاص پھر غصے سے لال سرخ ہوا اور صفی اور محبوب کو پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ کیا اور کہا، ”سمجھو یہ میری جانب سے مر گیا ہے لیکن مجھے اجازت دو میں اس کے دانت نکال دوں ۔ خدا قسم مجھے ایک دفعہ اجازت دو اس کو مرمت کرنے کی۔ پھر جہاں مرضی جائے لیکن میں ایسے نہیں جاﺅں گا۔ تماشا بنایا ہوا اس نے“

صفی اور محبوب بڑی مشکل سے اسے ایک طرف لیکر گئے۔ اور کلاشنکوف برداربھائیوں کی جانب اشارہ کر کے اس کو اس کی فضول خواہش پر سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد میں نے تینوں کو کہا کہ” دس منٹ ہو گئے ہیں۔ میری حربی تربیت کی کلاس شروع ہونے والی ہے۔ اس لیے خدا حافظ۔۔ “

میں مڑا ہی تھا کہ وقاص کی آواز آئی، تیری حربی کلاس کی ماں۔۔۔

محبوب نے گھسیٹ کر وقاص کو ایک طرف کیا اور صفی نے مجھے سمجھایا کہ’ دیکھ واقعی تمھارے باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔ ایک دفعہ مل کر واپس آ جانا۔ ہماری کیا جرات کہ جہاد جیسے مقدس فریضے سے تجھے روکیں‘

میں والد صاحب کے حوالے سے اس خبر سے اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ میں نے کہا لیکن میں پرسوں واپس آ جاﺅں گا۔

صفی اللہ نے کہا میری ضمانت ہے۔ کوئی تمھیں نہیں روکے گا۔

میں بوجھل قدموں سے کیمپ کمانڈر کے کیمپ میں گیا اور اجازت طلب کی جو ایک علیحدہ داستان ہے۔

اجازت ملی اور ہم نے چلنا شروع کیا۔ میں قدرے فاصلے پر رہتا تھا کہ تینوں مجھے دنیا دار، گناہ گار اور بھٹکے ہوئے لگتے تھے۔

پیدل سفر کے بعد بس پکڑی۔

بس میں ایک دو دفعہ وقاص نے دبے لفظوں میں کہا، ’چن واپس آنے کا بھول جا‘

میں آگ بگولا ہو جاتا اور محبوب اور صفی بیچ بچاﺅ کرتے۔

بس ایک جگہ ہوٹل پر رکی تو صفی نے کوک منگوائی۔ میں نے ایک عرصے کے بعد دنیاوی نعمت دیکھی تھی۔ میں نے اپنی بوتل ایک سانس میں ختم کر ڈالی اور چپ کر کے بیٹھ گیا۔

وقاص، محبوب اور صفی مجھے چڑیا گھر کا جانور سمجھ کر کن اکھیوں سے دیکھتے رہے اور اپنی بو تلوں سے جرعہ جرعہ پیتے رہے۔

آخر پر تینوں نے اپنی بوتلو ں کے پیندے میں چند گھونٹ چھوڑ دیے۔

بس نے جانے کے لیے ہارن بجایا، ہم سب بس کے پائیدان کے پاس پہنچے جب اچانک میں نے واپس دوڑ لگائی۔ وہ تینوں ہکا بکا کہ یہ کدھر کو دوڑا ہے ۔ شاید یہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا چاہتا ہے ۔ لیکن اچانک انہوں نے دیکھا کہ میں کوک کی ان بوتلوںکو جن کے پیندے میں چند گھونٹ تھے ایک ایک کر کے منہ کو لگارہا ہوں اور سڑ سڑ کر کے ختم کر رہا ہوں۔ ختم کرنے کے بعد میں اطمینان سے بس کی جانب چلا جہاں وقاص محبوب اور صفی کے چہرے حیرت سے ادھ کھلے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی تھیں۔

 اللہ جنت نصیب کرے وقاص کو ، جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا تھا تو اس کی ہنسی روکے نہیں رکتی تھی۔

یادوں کا ایک طوفان ہے جو امڈا چلا آتا ہے۔

میٹرک تک ہم پنڈی میں تھے۔ میٹرک کے بعد وقاص کو احساس ہوا جیسے وہ شہری روح نہیں ہے۔ وہ گاﺅں چلا گیا۔ اس نے تاﺅ دینے والی بڑی مونچھیں رکھ لیں۔ ڈیل ڈول ویسے ہی کافی نکل آیا تھا۔ مجھے تواتر سے خبریں موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ وقاص نے علاقے میں بدمعاشی شروع کر دی ہے۔ سٹوڈنٹس کا لیڈر بنا ہوا ہے اور مار پیٹ معمول ہے۔

یہ خبریں میرے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔ وقاص کی حساسیت اور اس بڑے ڈیل ڈول کے اندر چڑیا کے دل برابر دل رکھنے والے سے میں بخوبی واقف تھا۔ لیکن الجھن تھی کہ اگر یہ خبریں سچی ہیں تو شخصیت میں اتنا بڑا انقلاب کیسے آ سکتا ہے۔

میں گاﺅں گیا۔ دوسرے دن وقاص کے ساتھ کالج جانے کا تہیہ کیا۔

میں وقاص احمد خان بدمعاش کو دیکھنا چاہتا تھا۔

میں دیکھوں تو سہی جو ایک چیونٹی مارنے پر قادر نہیں وہ بندوں کو کیسے مارتا ہے اور اس کی اس اچانک شہرت کے پیچھے عوامل کیا ہیں۔

ہم گاﺅں سے اڈے پر پہنچے جہاں سے ہم نے تلہ گنگ کالج کے لیے بس پکڑنی تھی۔ راستے میں جیسے جیسے سٹوڈنٹس ملتے گئے وقاص کے لیے ملک صاحب ملک صاحب کی گردان بڑھتی گئی۔ میں نے وقاص کی چال میں ایک تبدیلی نوٹ کی ۔ اب اس نے چادر کو کاندھے پر یوں ڈال رکھا تھا کہ پشت کی جانب زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ اب چلتے ہوئے اس کے بازو اس کے جسم سے قدرے فاصلے پر حرکت کر رہے تھے۔ ایک کہنی میں ارادتا ایک خم آ چکا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد مونچھ کو خم دیتا۔ خاص انداز سے ہونٹ سکیڑے ہوئے تھے۔ ابرووں کے نیچے سے کن اکھیوں سے دیکھتا تھا۔ پاﺅں میں پہنی کھیڑی کے پچھلے بند کھول رکھے تھے۔ کھیڑی میں پاﺅں کو ایسے زاویے سے رکھتا کہ چلتے ہوئے چوں چوں کی آواز آتی تھی۔ مجھ سے بھی اجنبی ہو گیا تھا۔ اس کو احساس ہی نہیں تھا کہ اس کے پیچھے چلنے والے گروہ میں میں بھی شامل تھا۔ یا شاید مجھے ایسا ہی لگتا تھا۔

دو منحنی سے ڈرے سہمے سٹوڈنٹس وقاص کے پاس آئے اور کہا کہ فلاں گاڑی والے نے ان کو کل نہیں بٹھایا تھا۔ ان کی مرمت کرنی ہے۔

وقاص نے اپنے ساتھ چلنے والے ایک سیکرٹری نما طالبعلم سے رعونت بھرے لہجے میں پوچھا

” اﺅے ملکا ، اس گڈی دے آن دا ٹائم دس“

جواب ملا 4456 مصریال کے روٹ پر چلتی ہے ۔ پندرہ منٹ میں آتی ہو گی۔

وقاص نے لیڈرانہ لہجے میں سب کو کہا کہ” ہم فورا آنے والی بس پر سوار نہیں ہوں گے ۔ پہلے ذرا مجھے اس مچھل (مونچھوں والا) ڈھول کا قیمہ بنا لینے دو۔ تم لوگوں نے اس کی گاڑی روکنی ہے ۔ کسی نے نہیں مارنا۔ میں کافی ہوں اس کا بھرکس نکالنے کے لیے‘

میرا دل بیٹھ گیا۔ وقاص کا یہ روپ میں نے زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ اور ویسے بھی لڑائی بھڑائی سے میری جان جاتی ہے۔ جان تو وقاص کی مجھ سے زیادہ جاتی تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ سب کیسے کر رہا ہے۔ اتنے میں دور سے گاڑی آتی نظر آئی۔

میں دل پر بوجھ لیے ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اپنی بے وقوفی کو کوسنے لگا کہ کاش میں اس کے ساتھ آیا ہی نہ ہوتا۔

میں نے دیکھا کہ وقاص ایک خاص فاصلے پر چلا گیا ہے۔ یعنی جس جگہ گاڑی کو روکا جانا تھا وقاص اس سے سو قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا ہے۔

سٹوڈنٹس سڑک پر کھڑے ہو گئے۔ گاڑی روک لی گئی۔ وقاص گاڑی کی جانب پشت کیے کھڑا تھا جو ایک حیران کن منظر تھا کہ ابھی تو یہ خود بھرکس نکالنے کے اعلانات کر رہا تھا اور ابھی سو قدم کا فاصلہ ڈال کر پشت کیے کھڑا ہے جیسے اس سارے معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

ڈرائیور اور کنڈیکٹر سہم گئے تھے۔ سٹوڈنٹس وقاص کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی نگاہیں بھی اس جانب تھیں۔ اچانک ایک فلمی منظر کی طرح وقاص نے چادر کو ہوا  میں لہرایا اور مجمع کی جانب رخ کیا۔ ایک ہاتھ میں چادر تھی۔ دوسرا ہاتھ مونچھ کو تاﺅ دے رہا تھا۔ گردن اس قدر ٹیڑھی تھی اور چہرہ کاندھے کی جانب یوں جھکا تھا کہ کان اور کاندھا مس ہو رہے تھے۔ وہا ں سے وقاص نے ایک ایک قدم بڑھانا شروع کیا۔ مکمل فلمی منظر تھا ماسوائے اس کے کہ اس کے ہر قدم پر بیک گراﺅنڈ آڈیو ایفیکٹ ڈھیں ڈھیں ڈھز نہیں تھے۔ ایک قدم رکھنے کے بعد چند سیکنڈ لیتا اور پھر دوسرا قدم اٹھاتا۔

گاڑی کے پاس پہنچا جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کانپ رہے تھے۔ وقاص نے گاڑی کے دروازے پرپاﺅں سے ایک زور دار ٹھوکرماری جس نے ان ساکت لمحوں میں دل دہلا دیے۔ وقاص نے بازو اوپر اٹھایا اور زور سے مکہ ڈرائیور کے کاندھے پر جڑ دیا۔

 ہوا میں چلنے والے اس مکے کی رفتار اگر سو کلومیٹر فی گھنٹہ تھی تو ڈرائیور کے کندھے سے پانچ انچ پہلے رفتار چند میٹر فی گھنٹہ رہ گئی تھی کہ مباد ا کہیں ڈرائیور کو زور کا مکہ ہی نہ لگ جائے ۔ وقاص کے مکے نے بہت ہی آ رام سے بہت ہی پولے سے ڈرائیور کے کاندھے پر لینڈ کیا۔ ڈرائیور جو پہلے ہی سہما تھا گاڑی سے نکل کر داڑھی کو ہاتھ لگا کر معافی مانگنے لگا۔ ملک صاحب آئندہ ایسی گستاخی نہیں ہوگی۔

بس یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے اس ڈرامے کا علم ہو گیا۔ وقاص غضب کا اداکار تھا۔ جب وہ گاﺅں شفٹ ہوا تو اس نے چند نامی گرامی بدمعاشوں کی چال ڈھال اور مووز نوٹ کی۔ مشاہدہ تو ویسے ہی اس کا کمال تھا۔ اوپر سے خدا نے ڈیل ڈول دے رکھا تھا۔ تو اداکاری کے بل بوتے پر اس نے دھوم مچا رکھی تھی۔

پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دن اس کی اداکاری کا بھرم کھل گیا۔ ۔

پھر کیا تھا بس ہر طرف ایسی آوازیں تھیں۔۔۔ ملک کی اداکاری کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔

سب کالج کی دیوار ٹاپ کر بھاگ گئے تھے۔ وقاص بھاری جسامت کی وجہ سے آدھا دیوار پر تھا جب ہجوم نے آ لیا۔ ۔

ہجوم کی دسترس میں پشت اور ٹانگیں تھیں۔ ہجوم مارتا رہا اور وقاص احمد دیوار پر آدھے لٹکے استراحت فرماتے رہے۔ کہتے تھے قدرت نے اچھا بندوبست کیا کہ مجھے مارنے والے دکھائی نہیں دیتے تھے، گردکھائی دیتے تویہ بھلا کونسا خوش کن منظرہوتا۔

عموما فرماتے تھے دیوار کی دوسری جانب کھیتوں کا وسیع سلسلہ تھا۔ فطرت جوبن پر تھی۔ اور دیوار کی پچھلی جانب انسانیت مجھے مارنے میں مشغول تھی۔ تم نہیں سمجھو گے کیا شاندار تجربہ تھا۔ ذہن میں ایسی دلچسپ دوئی پیدا ہوئی کہ تم اسے محسوس بھی نہیں کر سکتے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments