خود ترسی- ایک قابلِ حل نفسیاتی مسئلہ


قدرے عام نفسیاتی مسائل میں سے خود ترسی ایک بہت بڑا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جسے پوچھ لیں اپنی مظلومیت کا یوں رونا روئے گا کہ سننے والے کا بھی دل بھر آئے۔ طلبا پڑھائی کی زیادتی پہ نالاں ہیں۔ ملازمت پیشہ لوگ ہمیشہ اپنی تنخواہ کی پیمائش میں مصروف رہتے ہیں اور زیادہ تر اس کے نتائج انہیں ڈیپریس کر دیتے ہیں۔ اکثر لوگ بشمول کلائنٹس، احباب اور میرے طلباء و طالبات اپنی کچھ ایسی الجھنوں کا ذکر کرتے ہیں جو انہیں الجھائے ہی رکھتی ہیں۔ مگر ان الجھنوں کی نوعیت کے حوالے سے میں اپنے ان تمام راہنمائی کے خواہاں افراد میں حد درجہ مماثلت پاتا ہوں۔ اگر ان مسائل کو عمر کے لحاظ سے گروہ بند کیا جائے تو یہ مماثلت شدید تر ہو سکتی ہے۔ ان مسائل کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں

رشتے داروں کی خودغرضی، بے مروتی اور حسد کی شکایت
غیر شادی شدہ لوگوں کے شادی نہ ہونے اور شادی شدہ لوگوں کے شادی ہو جانے سے کھڑے ہونے والے مسائل
نو عمر لڑکے لڑکیوں کی یک طرفہ، دو طرفہ اور کچھ کی ہرطرفہ ہونے والی محبتوں کے پیدا کردہ پیچ و خم

زندگی میں بے مقصدیت
زندگی سے کچھ نہ ملنے کی شکایت
وغیرہ وغیرہ

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ شکایات سب کو ہی ہیں سب سے تو قصوروار کون ہے؟ کہاں درستگی کی ضرورت ہے؟ تو یہ خرابی ہماری اپنی طرف سے ہوتی ہے اگر ہمیشہ نہیں تو زیادہ تر۔ خود کو مظلوم بنا کر خود پہ ترس کھا کر ہم اس پریشانی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جو ہمیں اپنی کوتاہی کا ادراک ہونے سے ہوتی ہے۔ اپنی غلطیوں کو سمجھ کر پہلے انہیں درست کریں پھر اگلے کی اصلاح کی تدبیر کریں۔ ہو سکتا ہے رشتہ داروں کی خود غرضی اور بے مروتی آپ کی خود غرضی اور بے مروتی کی وجہ سے ہو۔

جب آپ کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ شادی شدہ افراد کس بے کسی و بیزاری کی زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی شادی کے لئے بے قراری غیر منطقی ہے۔ اور اگر شادی شدہ ہیں تو اس کنوارے زمانے کی بے تابیوں کو یاد کرتے ہوئے ذہن نشین کر لیں یہ حقیقت کہ آپ کے ساتھ بہترین بس یہی ہو سکتا تھا۔ پیار محبت کے جذبات جائز ضرور ہیں مگر یہ بات سمجھ لیں کہ سب کچھ آپ کی منشا کے مطابق ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ اپنی ذاتی لغت میں سے ”لازم“ اور ”چاہیے“ جیسے الفاظ نکال دیں۔

خواہشات پالیں ضرور مگر ان کی تکمیل کے لئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ خواہشات کو قابو کریں خود خواہشات کے قابو میں نہ چلے جائیں۔ اگر ابھی آپ اسکول یا کالج کے طالبعلم ہیں، آپ اپنی کتابوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو کسی دوسرے انسان کا کیسے اٹھائیں گے۔ اس لئے انسان بن کر پڑھائی کر لیں پہلے، جانور نہ بنیں۔ اور یہ جو آپ کو آئے روز ہو جاتا ہی اسے پیار نہیں دل لگی کہتے ہیں۔ بہر حال آپ پیار کریں یا دل لگی بس اسے دل پہ نہ لیں۔

زندگی میں بے تحاشا اہم کام آپ کے منتظر ہیں۔ زندگی کا مقصد آپ کو صرف تجربے اور بہادری سے ملے گا۔ بہادرانہ فیصلے کریں، مختلف مواقع آزمائیں۔ صرف بیٹھ کر سوچتے رہنے سے زندگی کا مقصد نہیں ملے گا۔ اور آخری بات کہ زندگی نے آپ کو کیا دیا ہے تو بھائی آپ نے زندگی کو کیا دیا ہے؟ اگر کبھی ترازو لے کر تولیں تو پتہ چلے گا ابھی بھی جو آپ کو زندگی نے دیا ہے اس کا پلڑا بھاری ہے۔ سو، خود پہ ترس کھانا چھوڑ کر خود شناسی اور خود احتسابی اختیار کر لیں۔ آپ کے زیادہ تر مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).