آباد ی میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ


تقسیمِ ہندوستان کے وقت پاکستان کی آبادی لگ بھگ 3 کروڑ 17 لاکھ تھی۔ 1951 ء میں کرائی گئی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 3 کروڑ 75 لاکھ تھی۔ 1961 ء میں ایوب خان کے دور میں کرائی گئی دوسری مر دم شماری کے مطابق آبادی کی کُل تعداد 4 کروڑ 28 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ موجودہ پاکستان (مغربی پاکستان) میں 1972 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں تیسری مردم شماری کرائی گئی جس کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 6 کروڑ 55 لاکھ تھی۔

چوتھی مردم شماری ضیاء الحق کے دور 1981 ء میں کرائی گئی جس کے مطابق کُل آبادی 8 کروڑ 42 لاکھ تھی۔ سترہ سال کے طویل عرصے کے بعد پانچویں مردم شماری 1998 ء میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہوئی جس کے مطابق کُل آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر چھٹی مردم شماری کا انعقاد 19 سال بعد 15، مارچ، 2017 ء کو عمل میں آیا جس کے عبوری نتائج کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے۔

یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ گزشتہ اکہتر سالوں سے دو فیصد امیر طبقہ اپنے مفادات کی وجہ سے مردم شماری میں آبادی کم دکھاتا چلا آرہا ہے جس کی ایک مثال 2017 ء کی مردم شماری میں کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کم ظاہر کرنا ہے لہذا گزشتہ اکہتر سالوں میں آبادی کی غلط تعداد دکھانے اور آبادی میں تیز رفتار اضافے کو مدِنظر رکھ کر یہ اندازہ قریباً صحیح ہے کہ پاکستان کی آبادی 28 کروڑسے تجاوز کر چکی ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک اندازے ٍکے مطابق آبادی 2.5 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو اس وقت درپیش ایک بڑا سنگین مسئلہ اس کی آبادی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہے۔ وسائل کم اور مسائل زیادہ اور اُس پر ستم مسلسل آبادی میں بے پناہ اضافے سے پاکستانی معاشرے میں ناخواندگی، بے حسی، خوراک کی کمی، قلتِ آب و بجلی، غربت، بے روزگاری، ملاوٹ، مہنگائی، بدعنوانی، انتہا پسندی، دہشت گردی میں اضافہ، منشیات کے استعمال کے رُجحان میں اضافہ، شادی نہ ہونے کے مسائل میں اضافہ، خواتین و بچوں کے ساتھ زیادتی میں اضافہ، طلاق کے رُجحان میں اضافہ، بیماریاں پھیلنے کے باعث علاج کرانے کی دستیاب سہولتوں اور اسپتالوں کی کمی کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ، پیداوار و زراعت میں کمی، ضرورت کے مطابق کھیلنے کے میدان میسر نہ ہونا، رہائشی علاقوں کی کمی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جنگلات اور چٹانیں کاٹ کر شہرآباد کرنے کے مسائل، قدرتی ماحول کی تباہی، بدامنی، لاقانونیت اور جرائم کی شرح میں اضافے کی وجہ سے کاروبار، صنعتیں بند ہوجانا، نئی صنعتوں کا نہ لگنا، معیشت ٹھپ ہوجانا، دیہاتوں سے روزگار کے سلسلے میں عوام کا شہروں کا رخ کرنا سمیت دیگر ہولناک مسائل عوام اور معاشرے کو مزید تیزی سے نگل رہے ہیں۔

مشور فلسفی، مورخ و دانشورابنِ خلدون کے مطابق بھی آبادی زیادہ ہو اور وسائل کم ہوں تو ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اس لئے ریاست کو آبادی پر کنٹرول رکھنا چاہیے۔ عالمی ذرائع کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں ناخواندگی، غربت، انتہا پسندی، بدعنوانی، دہشت گردی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملکی و قومی مفاد میں دیکھا جائے تو کوئی ذی شعور پاکستانی اس چشم کشا حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتا کہ پاکستان کا داخلی استحکام انتشار کا شکار ہے اور اگر پاکستان میں آبادی میں مسلسل تیز رفتار اضافے کو روکا نہ گیا اور اس پر یونہی پردہ ڈالاجاتا رہا تو آگ کی طرح تیزی سے پھیلتی تباہی معاشرہ کا مقدر ہوگی۔

پاکستان کے مقابلے میں چین، بنگلہ دیش اور بھارت نے اپنی اپنی آبادیوں کو کنٹرول کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے معیشت سمیت پورے معاشرہ پر بھی مثبت نتائج ثبت ہو رہے ہیں۔ اب چائنا اپنے عوام کو ایک بچہ مزید پیدا کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کا شعبہ قائم ہوا تھا جس پر اُس وقت ایک طبقے نے بہت شور پچایا تھا جس کو بعد میں شعبہ بہبودِ آبادی کا نام دے دیا گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کو غیر اسلامی قرار دے دیا گیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ضیاء الحق کے بعد آنے والی حکومتیں بھی اس مسئلے سے اس وجہ سے آنکھیں چُراکر بیٹھی ر ہیں کہ ایک طبقہ اس کے خلاف سڑکوں پر نکل کر حکومت کے لئے پریشانیوں کا باعث بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے لئے میڈیکل ذرائع پاکستان میں تقریباًناپید ہیں۔

جانور اور انسان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جانور کو تعلیم، رہن سہن، روزگار، صحت، انسانوں کی طرح شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ انسان کو ان سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے شعور کے خلیے عطا کر کے اشرف المخلوقات بنا یا ہے تاکہ وہ علم حاصل کر کے اور غور و فکر کے ذریعے کائنات کو تسخیر کر سکے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک جاپان، کینیڈا، جرمنی، فرانس، برازیل، اٹلی، برطانیہ، بھارت، امریکہ اور چین وغیرہ کر رہے ہیں۔

ان تمام ترقی یافتہ ممالک نے علم اورغور و فکر کی بنیاد پر ترقی و خوشحالی کے دیگر کئی رازوں کے ساتھ اس راز کو حاصل کر کے کہ ”وسائل کے دائرہ کار میں آبادی ہو تو ملک خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتا ہے“ اس پر بھی مخلصی سے عمل کیا ہے۔ ان ممالک کی زیادہ نہیں صرف گزشتہ اکہتر سالوں کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو ترقی و خوشحالی میں ہر سال دنیا بھر کے دس بہترین ممالک میں آپ کو ان میں سے کئی ممالک نظر آئیں گے۔ ان ممالک کی طرح دیگر اور ممالک نے بھی اپنی اپنی آبادیوں پر کنٹرول کیا اور آہستہ آہستہ چند ممالک کے ساتھ ساتھ اب وہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ہونے کی بدولت ان میں سے کئی ممالک نے لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں شہریت دے رکھی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان ممالک میں غیر قانونی تارکینِ وطن آباد ہیں اس کے باوجود ان کی ترقی کی رفتار بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

جبکہ پاکستان کی طرح جن ممالک میں آبادی میں تیز رفتار اضافہ بڑھتا چلا جارہا ہے جیسے کہ جمہوریہ سینٹرل افریقہ، عوامی جمہوریہ کانگو، برونڈی، لائبیریا، مالی یا ملاوی، گنی، مڈغاسکر، وفاقی جمہوری عوامی ایتھوپیا، موزمبیق وغیرہ ان سب ممالک میں پستی میں اضافہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ممالک اور ان کے عوام ترقی یافتہ ممالک کی معاشی غلام منڈیاں بن کر سسک سسک کر جی رہے ہیں اور ان پر چڑھا قرضہ ان کی آنے والی کئی نسلوں تک پر چڑھ چکا ہے جس کو یہ اور ان کی کئی نسلیں تک اُتارنے سے قاصر رہیں گی۔

سال 2018 ء میں جاری ہونے والی آبادی کے حوالے سے دنیا کے ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے جو کہ پاکستان کی جانب سے دستیاب کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ہے جبکہ حقیقت میں درست اعداد و شمار ظاہر کیے جائیں تو پاکستان کا اس فہرست میں کم از کم چوتھا نمبر بنے گا۔ بہرحال دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی آبادی میں چھٹے نمبر پر آجانا بھی پاکستان کے لئے خطرے کی ایک سنگین گھنٹی ہے۔

چند ہفتوں قبل چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے بھی پاکستان میں آبادی بڑھنے کے سنگین مسئلے پر آواز بلند کر کے ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی بہترین کاوش کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جید علمائے کرام، دانشوران، سیاستدانوں، غیر سیاسی قوتوں غرض سب کو جلد متحد ہو کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء، آزادی، ترقی و خوشحالی کے لئے پاکستان کو لاحق اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے ہر سطح پر مثبت مکالمے کے عمل کے ذریعے اپنا مثبت عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).