درجہ بندی میں پاکستان کا شمار غیر مقبول ترین ممالک میں


عکس کے اندر جادوئی طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت کسی کو بھی احساس تفاخر میں مبتلا کرسکتی ہے یا ندامت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ عکس ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے اس کی وضاحت شاید دو اقوال سے ہو سکے۔ جو تصویر کشی کی ایک ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں۔ پہلا قول ہے ”میں آئینے میں تو اتنا خوبصورت دکھتا ہوں، یہ تصویر میں مجھے کیا ہو جاتا ہے؟ “ دوسرا قول یہ ہے کہ ”کیا آئینے کی تصویر، آئینہ نہیں ہوسکتی؟ “۔ پہلے قول سے تو نرگسیت صاف جھلکتی ہے لیکن دوسرا قول قدرے ٹیڑھا ہے۔

ہر فرد میں نرگسیت کی کم یا زیادہ، ایک مقدار ضرور موجود ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ اس سطح کو چھونے لگتی ہے جہاں تصویر اور آئینے کا فرق ہی ختم ہونے لگتا ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلا تصویر بھی کبھی آئینہ ہوتی ہے؟ یہ کوئی پیچیدہ یا بہت ہی فلسفیانہ بیانیہ نہیں ہے۔ اگر آپ میڈیا پر جاری بحثیں دیکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بات کیا ہورہی ہے۔ میڈیا، خواہ مرکزی دھارے کا ہو، متوازی یا سماجی، ہر جگہ خبطِ عظمت ہے یا ماتم کدے۔

بحث تصورِ نسواں پر ہو، غیر مسلموں یا ”کم مسلموں“ کے حقوق کی، سماجی اور مذہبی اقدار کی۔ بات صرف مثالوں (تصوراتی تصور، جن کا عکس نہیں بن سکتا) کے گرد گھومتی ہے ہمارے دلائل، انداز گفتگو اور زہر بھرے نشتر ہماری جو تصویر بناتے ہیں وہ ہم ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قصور کیمرے کا ہے ورنہ آئینے میں تو ہم بہت خوب صورت نظر آتے ہیں۔ یہ عمل بڑے پیمانے پر سیاسی اور علاقائی سطح پر بھی ایسے ہی رونماہورہا ہے۔

ریاستی ادارے بھی ایسی ہی نرگسیت کا شکار ہیں۔ منہ پھٹ سماجی امور کا ماہر اسے ”شدید ترین اجتماعی نرگسیت کی بیماری“ سے تعبیر کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سماجی سائنس ایسی صورتحال کو بیان کرنے کے لئے اصطلاحات سے تہی دامن ہے اگر ”سماجی ابتری“ (Social disorder) اور سماجی فوبیا کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہمارے سماج کی قدرے مناسب تشخیص ہوسکتی ہے۔ اربن ڈکشنری کے خلاف ”سماجی ابتری“ سماج کی وہ حالت ہے جو دیگر ابتریوں اور غیر مناسب چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بنتی ہے جبکہ سماجی فوبیا ایک شدید خوف ہے جودوسروں کے آپ کے متعلق خیالات سے پیدا ہوتا ہے اور فرد ایک ایسی شرمندگی کی کیفیت میں رہتا ہے جس کا اظہار رد عمل یا غصے کی صورت میں کرتا ہے۔

سیاسی مفکرین ایسی صورتحال کو سماجی زوال (Social Decay) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ایسی کیفیت ہے جہاں لوگ عمومی گروہ بندیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر گروہ دوسرے کو اجنبی (Stranger) پکارتا ہے اور یہ اجنبی آپس میں رابطہ انتہائی ضرورت کے وقت کرتے ہیں۔ کیا اس تعریف میں آپ کو اپنے سماج کی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مذہب بمقابلہ سیکولر ازم، دایاں بازو بمقابلہ لبرل، جمہوریت پسند بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور اس طرح کے دیگر مباحث میں زوال کی تصویر نظر آتی ہے؟

نفسیاتی اصطلاح میں ایسی صورتحال کو ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی عملی بے ترتیبی کا نام دیا جاتا ہے۔ جہاں تک باقی اثرات کا تعلق ہے تو ایک موقر اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے سماجی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن 113 ویں ہے اور ویسے اس درجہ بندی میں 116 ممالک شامل ہیں جبکہ برداشت اور امتیازات کی درجہ بندی میں حالت تو بہت ہی بری ہے۔ جہاں پاکستان 133 ممالک کے ساتھ مسابقت میں 132 ویں نمبر پر ہے۔

دوسال پہلے تک پاکستان کا شمار غیر مقبول ترین ممالک کے اعلیٰ درجوں میں ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ دو سال میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے بلکہ گزشتہ دو سال سے یہ درجہ بندی ہی نہیں ہو رہی۔ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کچھ میدانوں میں تو پاکستان کچھ نہ کچھ ترقی کررہا ہے۔ دراصل یہ چھ محرکات کا آپس میں سبب اور علت کا تعلق ہے۔ یعنی اگر ایک میدان میں ترقی ہورہی ہے تو باقی اس ترقی کو ہڑپ کر جائیں گے۔ مثلاً دوسرا محرک جو سماجی اکائیوں میں انتشار سے متعلق ہے یہ جرم، دہشت گردی، انتہا پسندی اور دیگر پرتشدد رجحانات کی بھی پیمائش کرتا ہے۔

شماریاتی تناظر میں تو لگے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی واقع ہورہی ہے لیکن کیا اس کے محرکات اور اسباب بھی ختم ہورہے ہیں؟ یہ عوامل مل کر نحوست کا ایک چکر تشکیل دیتے ہیں جس کو توڑنے کے لئے ریاست اور سماج دونوں کو بھرپور قوت ارادی درکار ہوتی ہے جو دیر تک چل سکے اوررستے میں آنے والے چیلنجز کے سامنے کمزور نہ پڑے۔ فنڈ فار پیس کے پاکستان سے متعلق میزانیے سے کم از کم یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست اور سماج کی تصویر کشی میں کون سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

یہ صرف دو ہیں ایک اندرونی استحکام اور دوسرا ہمسائیوں سے تعلقات۔ یہ میزانیہ ہر سال مرتب ہوتا ہے اور اس سال پاکستان نے عدم استحکام کے شکار ملکوں میں انیسواں درجہ پایا ہے۔ اندرونی استحکام صرف جرائم اور دہشتگردی پر قابو پانے سے نہیں آتا بلکہ ان کی وجوہات کو ختم کرنے سے آتاہے۔ جو عوامل جرم اور شدت پسندی کی پرورش کرتے ہیں وہ ریاست کی پالیسیوں میں گوندھے ہیں اور اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ عام آدمی شدت پسندوں کو برا سمجھتا ہے لیکن جب ان جیسے ہی رویے اختیار کرتا ہے تو پہچان نہیں پاتا کہ یہی انتہا پسندی ہے اور ریاست کو تو شدت پسند اظہار سے مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے، جب تک وہ اشرافیہ کے مفاد کو زد نہ پہنچائے۔

بحیثیت مجموعی ریاست اور عوام دونوں ایسے یوٹوپیا (تصوراتی دنیا) میں رہتے ہیں جہاں نرگسیت بنیادی قدر ہے اور انہیں لگتا ہے پوری دنیا ان کی قیمتی متاع (یوٹوپیا) چھیننے کے چکر میں ہے۔ کسی بھی ریاست کے ہمسائیوں سے تعلقات، اس ریاست کی معاشی قوت، سیاسی اثر و نفوذ اور سٹریٹیجک استحکام کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں یہ منظر نامہ تضادات سے بھرپور ہے۔ پاکستان کے تین ہمسائے جن کے ساتھ اس کے تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، سماجی اور مذہبی تعلقات ہیں۔

ان سے اس کے خارجہ تعلقات اچھے نہیں۔ چین جس سے ہمارے سٹرٹیجک اور معاشی مفاداتی رشتے بڑھ رہے ہیں، مختلف تہذیبی اور ثقافتی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ محض سیاسی سٹرٹیجک یا خارجہ امور کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی اس کشمکش کا اظہار بھی ہے جو یہ آزاد شناخت کے لئے بھی کررہا ہے۔ یہ کشمکش اور اندرونی محاذ آرائی آزادی کے بعد سے جاری ہے اور ہم اپنے جیسی سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار رکھنے والوں سے تعلق پسند نہیں کرتے اور اس کے بدلے اپنے خطے سے باہر کے ثقافتی اور سماجی اثرات کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ریاست اور سماج کی یہ کشمکش گہری ہوتی جارہی ہے اور ہم فریبِ نظر کا شکار ہورہے ہیں۔ جہاں آئینہ دوست ہے اور تصویر ہماری دشمن۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).