پنکی میم صاب


پنکی میم صاب نے لکھنے پر مجبور کردیا، ِ۔ ورنہ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔ رئیلسٹک سنیما کی شدید کمی ہے اور پنکی میم صاب جیسی فلمیں اس خلاء کو پر کرنے کے لیے اشد ضروری ہیں، دبئی سے تعلق رکھنے والی ہدایت کارہ شازیہ علی خان کی یہ فلمم، کپیٹل ازم کا شدید شکار شہر دبئی کا ایک مجمموعی جائزہ لیتی ہوئی، کہانی کو مختلف کردار بلکہ مختلف سوشل مسائل میں گھرے طبقات میں کے اندر تک کی کہانی بیان کرتی ہے۔

کہانی گھومتی ہے ان رنجشوں، تلخیوں اور مسائل کی طرف جو انسان کو زندگی سے جینے کے بجائے ایک مشین میں ڈھال دیتے ہیں۔ کرن ملک (مہر) کو ایک کامیاب انویسٹمنٹ بنکر کی بیوی دکھایا گیا، جس کی ذات کے اندر اپنی رائٹر بننے کی جدوجہد اور اپنی شناخت کی ایک اندرونی جنگ چل رہی ہے، لوگ اس کو مستقل تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایک عورت کو صرف مالی آسودگی کی خطر کام کرنا چاہیے۔ ایسے میں اس کی گاؤں سے نو وارد مصیبت زدہ ملازمہ حاجرہ یامین ( پنکی) ، جو دوسری طرف معاشی جنگ اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔

ایک ایسا شوہر عدنان جعفر جو کہ ایک کامیاب بنکر ہے مگر ایک مصنوعی زندگی گزار رہا ہے، میاں اور بیوی کے بیچ میں ایک ذہنی خلیج ہے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تو ہیں مگر ایک مختلف سمت میں سوچتے ہیں۔ کس طرح ایک ایلیٹ عورت کے کام کرنے کی تگ و دو کو ہجھٹکا جاتا ہے اور اس کی بظاہر گلیمرس نظر آنے والی زندگی اندر سے ادھوری ہے وہ شناخت حاصل کرنے کی جدوجہد میں قطعاً تنہا ہے، کس طرح انٹلکٹ کو معاش کے پلڑے میں تول کر وزن میں ہلکا جان کر پٹخ دیا جاتا ہے۔

پنکی کا رول نبھانے والی اداکارہ حاجرہ نے بہت نیچرل طریقے سے اداکاری کے ساتھ رول میں جان ڈال دی۔ گاؤں والا طرز تکلم، زبان کا اٹکنا اور کردار کو سمجھنا یہ عناصر نمایاں تھے۔ اس کردار میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو بہت آرام سے عبور کیا۔ عدنان جعفر تو اپنے رول میں نگینے کی طرح فٹ تھے۔ ایک بنکر کی طرح دفتری اٹھنا بٹھنا روز کی الجھنیں مزاج میں آنے والا روکھا پن مگر دل کے اندر موجود چھپی ہوئی نرمی کا ہلکا سا تاثر، بے ساختہ بیوی کے سرد رویے پر بھرا جانا، بیٹے کی خاطر اپنی متروکہ محبت ٹینس کو دوبارہ شروع کرنا اور پھر اپنے رویے سے اندر کی تبدیلی کو عیاں کرنا بے حد عمدہ تھا۔

دوسری طرف باقی کردار سنی ہندوجا ، خالد احمد، شمیم ہلالی اور حاجرہ خان نے بے حد جاندار اداکاری کی۔ یہ فلم معاشرے کے بہت سے پہلووں کا احاطہ کرتی ہے، جہاں ایک طرف بار ڈانسر اپنے بیٹے کو پالنے کے لیے جتن کرتی ہے اور کہتی ہے اگر اب وہ بڑا ہو کر مجھے چھوڑ دے تو پھر لعنت ہو، چور ڈاکو نہیں، میں بھی صرف ڈانس کرتی ہوں جو اگر کوئی ہائے سوسائٹی کی عورت کرے تو فیشن۔ دوسری طرف پنکی کا کہنا میں تو وہ اب نہیں ہوں، اس لیے مجھے مت ڈھونڈیں۔

بچے کے کردار کے تمام تر پہلو غور طلب تھے، کس طرح بچہ روز کی زندگی میں اس مکینکل ریس کی وجہ سے تناؤ کا شکار رہتا ہے اس کے کھلونے اس کا اسکیپ بن جاتے ہیں، مذاق اڑائے جانے کا شکار اس کی شخصیت کو مسل دیتی ہے۔ سماجی تلخیاں، میاں بیوی کے بیچ توقعات کی خلیج، پنکی جیسے لوگوں کی جدوجہد ایک بچے کی حساسیت اور اس کے مسائل کی کہانی، ایک بوڑھے باپ کی کہانی جو اپنی اولاد کو بڑھاپے اور زندگی کے ایک یکسر حقیقت پسند پہلو کو روشناس کراتا ہے۔

ببل سنیما جو کہ صرف گلیمر اور بڑے ناموں کے گرد گھومتا ہے، ایک مخصوص قسم کی سنیما گرافی اور سٹوری کا محتاج ہے۔ جس میں خاتون کا کردار یا تو مظلوم ہوگا یا ظالم کوئی دوسرا نکتہ نہیں۔ یا خواتین کو لیڈ رول صرف دو بالٹیاں آنسو بہانے یا پھر ہیرو سے وفا شعاری پر ملتا ہے۔ کیک اور پنکی میم صاب جیسی فلمیں رئیلسٹک سنیما کے لیے ایک اچھا اضافہ ہیں، مزید مضبوط پلاٹ کے ساتھ یہ فلم مزید بہتر ہوسکتی تھی۔
( شعبہ تدریس جامعہ پنجاب، سوشل ایکٹیوسٹ، سوشیالوجسٹ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).