آج کے پاکستانی پوپ


بابا آج ہم نے ہسٹری میں پوپ کے بارے میں پڑھا۔
اچھا بیٹا کچھ مجھے بھی بتائیں پوپ کے بارے میں۔ میں نے سرمد مسعود کی حوصلہ افزائی کرتے پوچھا۔

بابا! پوپ دنیا کا طاقتور ترین شخص تھا، اس سے بادشاہ وزیر سب ڈرتے تھے،
اچھا بیٹا، اور کیا کرتا تھا پوپ۔

بابا پوپ لوگوں سے پیسے لے کر ان کے گناہ معاف کرتا تھا۔ جسے چاہتا اسے پھانسی چڑھا دیتا جسے چاہتا اسے پریسٹ بنا دیتا، اور ایک بار تو اس نے ایک بادشاہ کو تین دن ننگے پاؤں برفیلے پہاڑوں پر چلنے کی بھی سزا سنائی۔ لیکن پھر اس کا زوال آیا اور آج اس کے پاس پاورز نہیں ہیں۔

اچھا بیٹا۔
جی پاپا، سرمد مسعود نے خوشی سے گردن ہلاتے کہا۔

لیکن بیٹا آج کا پوپ اُس سے کہیں زیادہ پاورفل ہے۔ بابا آج کے پوپ کے پاس تو ہے ہی کیا؟ 44 ہیکٹر پر مشتمل ریاست ویٹیکن کا مالک ہے بس۔

بیٹا پاپائیت کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں۔ ہر لامحدود اختیار کے مالک، مطلق العنان شخص کو پوپ ہی سمجھو، کسی دور میں یہ کردار فرعون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو کسی دور میں یزید کی صورت میں تو کبھی ہلاکو کے نام سے ظلم کرتا ہے تو کبھی کسی بابے کی صورت میں۔ آج کے پاکستان میں بھی چھوٹے بڑے بہت سے پوپ مل جاتے ہیں۔ جسے چاہیں، اپنی توہینِ کی آڑ میں نا اہل کر دیں، رسوا کردیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ پوپ اگر چاہیں تو وزیراعظم وزیر اعلیٰ وزیروں مشیروں جسٹسز اور ججز کو بیک جنبشِ قلم گھر بھیج دیں، ان کے فیصلے کو کوئی چیلینج نہیں کرسکتا۔

یہ کبھی نظریہ ضرورت کے تحت آئین ساز اسمبلی کو گھر بھیجتے ہیں تو کبھی منتخب وزیراعظم کو جھوٹے کیس میں سزائے موت سناتے ہیں، کبھی پی سی او پر حلف اٹھا کر کسی ڈکٹیٹر کے اقتدار کو جواز بخشتے ہیں تو کبھی پارلیمنٹ سے منظور شدہ آئینی ترمیم کوٹھکراتے ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام ایک طرف اور یہ مٹھی بھر بزعم خود پوپ دوسری طرف ، اپنے آپ کو سب پہ بھاری سمجھتے ہیں۔

کبھی ایک بوتل پر ایک اداکارہ کو گھسیٹتے ہیں تو کبھی گم شدہ شہریوں پر چپ رہتے ہیں۔ دال چاول کے بھاؤ اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر از خود حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن 12 مئی اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے واقعات پر خاموش رہتے ہیں۔ کہیں ملک ریاض سے ڈیم کے نام پر پیسے لے کر ریلیف دیتے ہیں تو کہیں جاوید ہاشمی اور نہال ہاشمی جیسے سیاسی کارکنوں کو رگڑا لگاتے ہیں، کبھی اقامہ کو بنیاد بنا کر منتخب وزیراعظم کو چلتا کرتے ہیں اور کہیں 62 اور 63 کی چلتی پھرتی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کر کے صادق و امین کی اسناد بانٹتے ہیں۔ یہ پوپ جسے چاہیں، مافیا کا سرغنہ قرار دے کر اس کی عزت نفس مجروح کریں تو اگر چاہیں تو اشتہاری ملزموں کو عزت بخشیں۔

مجھے لگا کہ میری باتیں سرمد مسعود کے دماغ سے اوپر ہی اوپر گزر رہی ہیں جیسے کسی دور میں ”آگ کا دریا“ کا فلسفہ میرے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ یہ سوچ کر میں نے خاموشی اختیار کر لی اور سرمد مسعود کو ٹیلی ویژن آن کرنے کا کہا۔ عین اسی وقت ٹی وی پر ایک شخص کی تصویر اور بیان چل رہا تھا۔ سرمد نے شرارتی انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، بابا ہمارے پوپ یہ ہیں؟

یہ اکیلا تھوڑی ہے بیٹے، پاپائیت کی ایک ثقافت ہوتی ہےجس میں طاقت کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ پاپائیت کا ایک چہرہ اور ایک نام نہیں ہوتا۔ موقع ملتے ہی کیچوا ہاتھی بن جاتا ہے اور سورج کی کرن پڑتے ہی دریا سوکھ کر صحرا ہو جاتا ہے۔ میں نے گویا اپنے آپ کو کہتے ہوئے سنا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).