سب بے گناہ ہیں تو پھر پاکستان میں آخر کرپشن کی کس نے؟


فواد چودھری نے سوال بالکل صحیح پوچھا ہے، اگر گذشتہ پندرہ سال میں حکمران رہنے والوں نے کرپشن نہیں کی تو پھر کیا جن آکر یہ لوٹ مار کر گئے ہیں؟

اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن ہوئی ہے کہ نہیں؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں ہوئی تو پھر تو قصہ ہی ختم، اور اگر جواب یہ ہے کہ ہاں کرپشن ہوئی ہے تو پھر ملین ڈالر کا سوال اٹھتا ہے کہ یہ کرپشن کس نے کی؟ اگر سیاستدانوں پر الزام آتا ہے، پکڑے جاتے ہیں تو اپنے وقت میں جان کے دشمن سیاستدان بھی ایک ہو جاتے ہیں اور قومی اسمبلی کی کارروائی تک چلنے نہیں دیتے۔ اگر بیوروکریٹ کرپشن میں پکڑے جاتے ہیں تو نوکر شاہی ہڑتال کی دھمکی دیتی ہے جیسا کہ پنجاب میں احد چیمہ کی گرفتاری کے موقعے پر ہوا، اسی طرح کوئی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اسپتال کی دوائیوں کی خرید میں کرپشن کرتا ہے تو ڈاکٹر ہرتال کرتے ہیں، کوئی وائس چانسلر یا ہیڈ ماسٹر کرپشن کرتا ہے تو اساتذہ کی تنظیمیں ہڑتال کرتی ہیں اور کسی صحافی کا کرپشن میں نام آتا ہے، گرفتاری ہوتی ہے تو پریس کلبوں کے آگے مظاہرے ہوتے ہیں تو پھر کرپشن کے خلاف جو ہے بھی اربوں کھربوں میں اور ہے بھی کھلم کھلا، جس سے کل کے کنگلے ارب پتی بن چکے ہیں، آخر ایکشن کیسے ہو گا؟ آخر کرپٹ لوگ پکڑ میں کیسے آئیں گے؟

نیب نوٹس بھی نہ بھیجے، گرفتار بھی نہ کرے، گرفتار کرے تو ہتھکڑی بھی نہ لگائے، دوران تفتیش کوٹھڑی میں بھی نہ رکھا جائے، اسپتالوں کے آرامدہ کمروں میں رکھا جائے، میمبر ہو تو اس کے پراڈکشن آرڈر بھی نکالے جائیں پھر تو شیخ رشید صحیح کہتے ہیں کہ کرپشن کیسز میں گرفتار، پراڈکشن آرڈر پر اجلاس میں آنے والا پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا چیئرمین آخر کیسے بن سکتا ہے، جس کا مقام ایک وفاقی وزیر کے برابر ہے اور اس کی گاڑی پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے۔

حال ہی میں کیمپ جیل میں جوڈیشنل حراست کے دوران انتقال کر جانے والے میاں جاوید کے کیس میں نیب پر بڑی یلغار ہوئی ہے، جس قسم کا واقعہ رو نما ہوا اس پر مذمت بھی چاہیے اور ہم نے بھی ٖ میاں جاوید صاحب کی ہتھکڑیوں لگی جسد خاکی دیکھ کر نیب کی مذمت کر ڈالی کہ ایک پروفیسر صاحب کی لاش کے ساتھ یہ کیا ہوا ہے، لیکن نیب کا موقف آنے، میاں جاوید مرحوم کو جوڈیشل کیمپ جیل سے اسٹریچر پر بغیرہتھکڑی لے جائے جانے کی ویڈیو دیکھنے کہ بعد بات سمجھ میں آئی کہ معاملہ بہرحال ایسا نہیں تھا جیسا وائرل ہوا۔

میاں جاوید کے معاملے میں سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ، میاں جاوید احمد سرگودھا یونیورسٹی کے پرائیویٹ سب کیمپس لاہورکے مالک/چیف ایگزیکٹو اور ایک بزنس مین تھے وہ کوئی استاد، پروفیسر یا ماہر تعلیم نہیں تھے۔ دیگر ملزمان کے ہمراہ کرپشن کے ایک مقدمہ میں گرفتار تھے غیر قانونی کیمپس کھولنا، طلبہ سے 13 کروڑ روپے سے زائد فیسوں کی مد میں وصولی، ہزاروں طلبہ کے غیر قانونی داخلے اور خزانے کو 9 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کے کیس میں اکتوبر 2018 ء میں ان کو گرفتار کیا اور وہ اب جوڈیشل کسٹڈی میں تھے۔ جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کو اسپتال لے جاتے ہوئے کوئی ہتھکڑی نہیں لگی ہوئی، پھر ان کی جسد خاکی کو ہتھکڑی لگے فوٹو کے ساتھ وائرل کرنے کے پیچھے کون ہے؟ کیا مقاصد ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

ملک میں جس پیمانے کی کرپشن ہوئی ہے، اس پیمانے کی پکڑ دھکڑ بالکل نہیں ہوئی، سلیکٹڈ احتساب بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ سیاستدان بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ جس طرح ان کی پکڑ دھکڑ جاری ہے، اس طرح تو قومی اسمبلی کا اجلاس اڈیالا جیل میں ہوگا۔ سیاستدانوں کا یہ مطالبا بھی بالکل جائز ہے کی کرپشن صرف انہوں نے نہیں کی، ججوں، جنرلوں اورجنرلسٹوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے، بالکل صحیح بات ہے اور حکومت کو جوڈیشری، میڈیا اور عسکری کرپشن کی بھی پکڑ کر کے ایک مثال قائم کر کے ان سیاستدانو کے منہ بند کرنے چاہیے جنہوں نے کرپشن بھی کی ہے اور مظلوم بھی بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).