جنرل (ر) شعیب صاحب کے احسان اللہ احسان پہ احسان


سچ تو یہی ہے کہ جان کی کوئی قیمت نہیں، پھر بھی سبھی کو سب سے زیادہ پروا جان کی ہے، یہی جان اگر اقلیتی مسلک سے تعلق رکھنے والے شہری یا کسی مسلح سرکاری اہلکار کی ہو تو اس کی پروا کچھ زیادہ ہی کرنی پڑتی ہے، کیونکہ وطن عزیز میں عرصہ دراز سے یہی لوگ مسلسل نشانہ بن رہے ہیں اور اس کی پروا کسی کو بھی نہیں، بالخصوص ریاست کو تو قطعاً پروا نہیں۔ اگر پروا ہوتی تو درجنوں، بیسیوں شہریوں، سرکاری اہلکاروں کے بہیمانہ قتل کی اعلانیہ ذمہ داریاں قبول کرنے والا، بے گناہ جنازوں پہ اپنی کامیابیوں کے اعلان کرنے والا دہشتگردوں کا ترجمان ہنستا مسکراتا یوں ریاستی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا؟ قطعاً نہیں۔

صرف وہ ایک ترجمان ہی کیا، پاک شہریوں کے اجتماعی قتل عام کے مرتکب ہمیشہ سے ہی نامعلوم چھتر چھایا میں تحفظ کے مزے لوٹتے رہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے قبل مجال ہے کہ کسی عدالت نے کسی دہشتگرد کو سولی پہ لٹکایا ہو، دہشتگردوں کو سزاؤں اور ان سزاؤں پہ عملدرآمد کے حوالے سے پشاور میں برپا ہونے والا اندوہناک سانحہ اے پی ایس انتہائی اہم ثابت ہوا، کیونکہ اسی کے بعد ہی نیشنل ایکشن پلان اور اس کے نتیجے میں دہشتگردی کے خلاف کسی حد تک موثر حکمت عملی اپنائی گئی، مگر اس ”موثر حکمت عملی“ کے باوجود بھی عام شہری اور درمیانے درجے کا سرکاری اہلکار عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عدم تحفظ کا یہ احساس اس وقت کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے، جب اس عام شہری کا تعلق کسی اقلیتی مسلک سے ہو اور وہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق کراچی، پشاور، کوئٹہ، ڈی آئی خان، ہنگو یا پارا چنار کا رہائشی ہو۔

گذشتہ ہفتے یعنی 16 دسمبر کے قریب قریب وفاقی و صوبائی دارالحکومت کی متعدد تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ اندر تو مچھلی بازار بنا ہے، کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی، آوازے ہیں اور آوازیں ہیں۔ خریداروں کا ہجوم مال کے کھرے کھوٹے کا معیار بنا ہے، مال تو یوں بھی خال خال ہی دکھائی دیتا ہے، دکھائی دیتے ہیں تو لوگ، جہاں زیادہ وہی مال قابل بھروسا زیادہ۔ کہیں مسلکی نفاق کا چورن اس زور و شور سے بک رہا ہے کہ رتی برابر کا تعامل کیا تو سمجھو رہ گئے۔

کوئی مذہبی راہنما نفرین کے بارعایت پیکج اتنے فخر سے متعارف کرا رہا ہے کہ لوگ خریدنے کے لئے قطار در قطار اپنی باری کے منتظر۔ قومیت کارڈ کے تاجر ایک سے بڑھ کر ایک آفر دے کر گاہکوں کو رجھانے، بلانے اور سمجھانے میں مصروف۔ واعظ اور پارساء شہر، تکفیر کے اوزار کی ایک سے بڑھ کر ایک خاصیتیں بیان بھی کر رہے ہیں اور اسی سے بنیادوں اور قبروں کی کھدائی کا نمونہ بھی دکھا رہے ہیں، کارکردگی تسلی بخش جبھی تو یہاں بھی کھوے سے کھوا چل رہا ہے۔

زبان اور نسلی امتیاز کی گھٹلیاں بیچنے والے خوانچہ فروش بھی شور شرابے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ادھر وہ بھوکا گلا پھاڑ پھاڑ کے خون میں لتھڑی ادھڑی چھدی سفید قمیضوں کی سیل سیل کے ہانکے دے رہا ہے۔ ادھر وہ سیاسی بونا جنازوں کی تعداد کے بدلے قد و قامت کی خرید و فروخت میں مشغول ہے۔ بیچوں بیچ بنے اونچے چبوترے سے اداس دھن پہ خوشحالی کا نغمہ نئے عزم سے گونج رہا ہے۔

کلف لگی پوشاک میں چھڑی تھامے موسیقار کی داد طلب نگاہیں لوگوں پہ اور ادھ ننگے لوگ واہ واہ کے ساتھ سر دھننے میں مشغول۔ کسی کا گردن، ہاتھ، زبان یا آنکھ کے اشارے سے اظہار تشکر تو بیشتر کنی کترا کے گزرنے والوں پہ مشتمل۔ پرعزم نغمے کی جاری دھن کے دوران ہی اونچے اونچے لاؤڈ سپیکروں سے جاری مختلف نوع کے اعلانات، فتوے، دعوے سننے والوں کی قوت سماعت کا امتحان، ایک کے بعد ایک مانگنے والا راہ میں حائل، بعض کسرتی بدن چوکنی چال والے چندے کے طلبگار تو کئی دعا کی اجرت کے طالب، چند ایسے کہ علامتی مظلومیت کا بھاری معاوضہ یوں مانگنے میں مصروف کہ جیسے بنیا قرض واپسی کا تقاضہ کرے، بعض ایسے کہ جو ثواب، چندہ اور مدد کے نام پہ علی الاعلان ڈکیتی میں مشغول۔

سارے ماحول میں حیرت زدہ کرنے والی ایک ہی چیز کہ در و دیوار پہ سانحہ اے پی ایس کی مذمت اور شہداء اور ان کے خانوادوں سے اظہار یکجہتی کے اعلان کندہ تھے۔ قریب ہی موجود سینیئر صحافی سے اس بابت جو سوال پوچھا تو بولے کہ ”اے پی ایس کے بینر تلے سبھی اپنا سودا بیچ رہے ہیں۔ بیچنے والے یہی رہتے ہیں اور یہیں رہتے ہیں، بس وقتاً فوقتا بینر بدلنے کی زحمت کرلیتے ہیں۔“

دہشتگردی کے سانحات پہ جاری کاروباری سرگرمیوں سے نظریں چرا کے اگر متاثرہ خانوادوں پہ ایک نگاہ ڈالیں تو کہیں کوئی ایسی ماں ملتی ہے کہ برسوں بیت جانے کے باوجود بھی اس کی آنکھ میں آج بھی آنسو ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس ماں کو بیدردی سے قتل ہونے والا اپنا لخت جگر بچوں کی 80 میتیں دیکھنے کے بعد ملا ہو، اس کی آنکھ سے آنسو کیسے تھم سکتے ہیں۔ کہیں کوئی ایسا بزرگ ملتا ہے کہ جسے بیٹے اور پوتے دونوں کی ایک ساتھ تدفین کے جاں گسل عمل سے گزرنا پڑا۔

کہیں کوئی ایسا محنت کش باپ ملتا ہے کہ جو اپنی کل کائنات دونوں بچوں کی لاشیں دونوں بازوں پہ اٹھائے نوحہ کناں ہے۔ کہیں معصوم، کمسن یتیم ابدی نیند سوئے بابا کو آوازیں دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی جوان بھائی کے جنازے سے لپٹی بہن کی آہیں آسمان کا سینہ چیرتی ہیں تو کبھی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے خاوند کی میت کو تکتی جاں بلب بیوہ فریاد کناں ملتی ہے۔ اپنے پیاروں کو کھوئے، دکھ و درد کی تصویر بنے یہ لوگ جب لائیو ٹی وی چینل پہ عسکری امور کے معروف ماہر جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کے منہ سے یہ الفاظ سنیں کہ ”فلاں دہشت گرد کو کیوں پھانسی دیں، وہ تو صرف ذمہ داری قبول کرنے والا ہے۔“ اس کے بعد اپنی کل متاع ہارے، دہشتگردی کے ان متاثرین پہ پہ کیا بیتی ہوگی؟

جو شخص پاکستان کے سینکڑوں بے گناہ شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری آن دی ریکارڈ قبول کرتا ہے اور اپنے ان گھناؤنے جرائم پہ فتح و خوشی کا اظہار کرتا ہے، اس کی وکالت اور ترجمانی میں ایک سابق جنرل اور عسکری امور کے ماہر کا سامنے آنا امن پسند پاکستانی شہریوں کے لئے یقیناً تکلیف دہ اور باعث تشویش ہے۔ دہشتگردی کے ستائے انہی لوگوں میں سے اگر کوئی اس عسکری امور کے ماہر کا گریبان پکڑ کے پوچھ لے کہ ہمارے پیاروں کا کیا گناہ تھا کہ انہیں یوں خاک و خون میں نہلایا گیا۔

؟ اگر آپ کے لئے جرم کی صحت کے لئے یہی ضروری ہے کہ مجرم اپنے ہاتھوں سے اس کا ارتکاب کرے تو ہر وقت جو ماسٹر مائنڈ کا راگ الاپا گیا، یقیناً وہ بھی قواعد و ضوابط سے ہٹ کر ہوگا، کیونکہ ماسٹر مائنڈ جائے وقوعہ پہ تو موجود ہی نہیں ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے سب سے زیادہ بے گناہ تو ٹی ٹی پی قیادت ہے، جو افغانستان میں موجود ہوتی تھی اور دہشتگردی کے سانحات پاکستان میں برپا ہوتے رہے۔ یہی نہیں جنرل (ر) امجد شعیب صاحب اگر آپ کی بات سے اتفاق کر بھی لیا جائے تو اس مد میں سب سے زیادہ فائدہ پڑوسیوں کے کلبھوشن کو ملنے کا احتمال ہے، جو عالمی عدالت میں پہنچے ہوئے ہیں۔

کلبھوشن کے ہاتھ جتنے بھی پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوں، احسان اللہ احسان سے تو اس کے جرائم کی فہرست کم ہی ہوگی۔ اب سابق جنرل صاحب واقعی احسان اللہ احسان پہ ہی مہربان ہیں یا اس توجیہہ کا بالواسطہ ثمر کلبھوشن کو دینے پہ آمادہ، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ علاوہ ازیں ایک لحظہ کے لئے انصاف کی اسی کسوٹی پہ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کو پرکھا جائے تو بھارتی حکومت، اعلیٰ افسران اور پالیسی ساز قطعاً بے گناہ ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ کشمیریوں پہ ظلم تو بھارتی فوجی اہلکار کر رہے ہیں۔

دہشتگردی کے خلاف جاری نیشنل ایکشن پلان میں دہشتگردوں کے سہولتکاروں کے لئے ایک باقاعدہ شق رکھی گئی تھی کہ انہیں بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ سہولتکار، یعنی دہشتگردوں کا معاون و مددگار۔ ویسے یہ سہولت کار کون ہیں ؟ کون ہیں جو دہشتگردی اور دہشتگردوں کے نظریاتی یا قانونی تحفظ کا اہتمام کرتے ہیں؟ ان سہولتکاروں، معاونت کرنے والوں کی نشانیاں کیا ہیں۔ لازم ہے کہ اس کی بھی باقاعدہ تعریف وضح کی جائے، تاکہ ریاست اور اداروں کے لئے شناخت میں آسانی رہے۔ کیا ریاست احسان اللہ احسان کو دہشتگرد سمجھتی ہے؟ اگر سمجھتی ہے تو اس پہ مہربان کیوں؟ آخر کب تک وطن عزیز میں مقتول لاوارث اور قاتلوں کی کفالت، اچھا چھوڑیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).