رضیہ نے فلم انڈسٹری میں قدم کیسے جمائے


گول مٹول چہرے، بھرے بھرے جسم، پانچ فٹ دو انچ قد، تیکھے نین نقش، گوری رنگت اور سنہرے بالوں والی رضیہ مجھے ایورنیو سٹوڈیو میں ملی۔ وہ میانوالی سے ادکارہ بننے کے لئے لاہور آئی تھی اور اس شہر خرافات میں اسے قیام پذیر ہوئے اڑھائی ماہ گزر چکے تھے وہ کئی فلم سازوں اور پروڈیو سروں کو ٹیسٹ دے چکی تھی اور سب نے ہی اس کی پرفارمنس کی تعریف کی تھی لیکن ابھی تک اسے کسی فلم میں صف اول کی اداکارہ کے ساتھ ( جیسا کہ اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ) اچھا رول نہیں ملا تھا۔

ماضی کی کامیاب فلموں کی ایک اداکارہ انجمن دوبارہ فلموں میں ان ہو رہی تھی اور رضیہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پر تول رہی تھی کیونکہ متعدد پنجابی فلموں کے ایک پروڈیوسر نے اسے اتنہائی قربت کے لمحات میں یقین دلایا تھا کہ وہ کسی طور پر انجمن سے کم نہیں ہے۔ ”جب تمہاری فلم ریلیز ہو گی تو لوگ انجمن کو بھول جائیں گے۔ “ ایک فلم ساز نے اسے کہا۔ لیکن ابھی تک اسے کسی فلم میں سائن نہیں کیا گیا تھا۔ ایک فلم ساز نے ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے اسے کیمرے کے سامنے کھڑا کر کے کچھ مناظر فلمائے تھے اور رضیہ کو کہا گیا تھا کہ اب متعلقہ لوگ مل بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔

ان ”متعلقہ لوگوں“ کی بھی ایک لمبی فہرست تھی اور اس کو روزانہ کسی نہ کسی ایسے شخص کو ٹیسٹ دینا پڑتا جو اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے بورڈ میں شامل تھا۔ ”نجانے اتنا بڑا بورڈ کیوں بنایا جاتا ہے۔ “ وہ کبھی کبھی سوچتی اور پھر وسوسوں کو ذہن سے جھٹک دیتی کیونکہ فلم ساز ایک ہو یا دس اسے تو بہرحال پہلے خود کو فلمی ماحول میں رنگنا تھا اور اسے بتایا بھی یہی گیا تھا کہ شرمانے والی لڑکی کے لئے انڈسٹری میں کوئی جگہ نہیں۔

ایک شب سٹوڈیو میں رات گئے میں رضیہ کو دیکھ کر ٹھٹکا کیونکہ وہ اچھی خاصی صورت کی مالک تھی۔ ایک جاننے والے نے کہا بیچاری آج کل کولہو کا بیل بنی ہے۔ میرا جی چاہا کہ اسے حقیقت سے آگاہ کر دوں مگر سوچا اس کا فائدہ کیا ہو گا کونکہ جو کچھ اس کے ساتھ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا اور اب لوگوں کے آنے جانے سے اس کی زندگی میں کوئی خاص فرق تو نہیں پڑنا تھا۔ نجانے اس نے سٹوڈیو میں کس کس کا ظلم سہا، کس کس نے اسے خواب دکھائے لیکن ایک روز ایسا ہوا کہ وہ لبرٹی میں تلاش معاش کے لئے گھوم رہی تھی کہ ایک شخص کا اس پر دل آ گیا اور وہ اسے اپنے ہمراہ لندن لے گیا جہاں اسے تین ماہ کے دوران بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

وہ واپس آئی تو لاہور میں ایک خوبصورت گھر خریدنے کے قابل ہو چکی تھی۔ اب اس گھر میں تماش بینی ہوتی ہے اور اسے دو فلموں میں ایک مشہور نام سے سائن کر لیا گیا ہے۔ فلموں کی کامیابی کا دارومدار اس کی قسمت پر ہے۔ ایک روز گفتگو کا موقع ملا تو رضیہ نے بتایا کہ میرا اصل نام رضیہ ہی ہے لیکن فلمی دنیا مجھے کسی اور نام سے جانتی ہے۔ آپ میرا فلمی نام مت لکھے گا۔

میں نے وعدہ کر لیا اور اس نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ مجھے فلموں میں کام کرنے کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ ماں باپ تھے نہیں۔ رشتے داروں کو میری عادات پسند نہ تھی۔ مجھے میانوالی سے لاہور کا فاصلہ طے کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی کیونکہ میرے پیچھے نہ کوئی خوش ہونے والا تھا اور نہ کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ میرے مر جانے پر دو آنسو بہائے۔ اس لئے میں اپنے شوق کی تکمیل کے لئے لاہور چلی آئی۔ مجھے کسی نے کہا سٹوڈیو جانے سے پہلے لکشمی چوک میں فلم سازوں کے دفاتر ہیں، وہاں چلی جانا۔ میرے پاس گزر اوقات کے لئے معقول رقم تھی۔

میکلورڈ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں قیام کے بعد رائل پارک چلی گئی جہاں سب سے پہلے کئی لوگوں نے گزرتے گزرتے میرے جسم پر ہاتھ مارے۔ کئی ایک نے سٹییاں بجائیں۔ کئی پہچاننے کی کوشش کرتے رہے کہ شاید میں کسی فلم کی اداکارہ ہوں! لیکن ان کی آنکھوں میں شناسائی کی بجائے مجھے حیرت نظر آئی۔ میں نے ایک دفتر کے باہر لگا ہوا بورڈ دیکھا جس پر عہد حاضر کی مشہور ترین فلموں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ میں اس دفتر میں داخل ہو گئی۔

میں جانتی تھی کہ اداکارہ کے لئے بولڈ اور بیوٹی فل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بیوٹی کے بارے میں تو میں خبر کچھ نہیں کہتی البتہ میں بولڈ ضرور تھی اور مجھے بولڈ بھی انہیں مردوں نے کیا تھا جو اپنا مطلب نکلتے ہی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ میں نے فلم سازوں کے دفتر اور سٹوڈیوز میں کئی ماہ چکر لگائے لیکن سوائے دھو کے کے مجھے کچھ نہ ملا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ پڑھے لکھے اور معزز نظر آنے والے فلم ساز اور فلم انڈسٹری سے متعلقہ دوسرے لوگ اس قدر گھٹیا بھی ہو سکتے ہیں۔

کئی ایک تو گفتگو کا آغاز ہی اس قدر فحش باتوں کرتے تھے کہ خدا کی پناہ۔ اس دوران مجھے ایک قدر دان ملا جس کے ساتھ کچھ عرصہ باہر گزارا او ر وہاں مجھ پر کام کرنے کی پابندی نہ تھی لیکن اتنا ضرور تھا کہ میرا رابطہ وہاں کی ہائی کلاس کے ساتھ رہا آمدن بھی تصور سے زیادہ ہوئی۔ ملک واپسی پر دوبارہ فلموں میں کام کرنے کے جراثیم نے تنگ کیا۔ اب میں اتنی بھولی بھالی نہیں رہی تھی۔ مجھے انڈسٹری میں قدم جمانے کا فن آچکا تھا۔

چند اخبارات ورسائل کے لئے کام کرنے والے اخبار نویسوں کو لفافے دیے، میری تصاویر صفحہ اول پر شائع ہوئیں۔ چونکہ میرا چہرہ نیا تھا اس لئے کئی کمپنیوں نے ماڈلنگ کی پیشکش کی۔ میں لندن میں یہی کام کر چکی تھی اس لئے کامیابی نے میرے قدم چومے۔ اب اس قابل ہوں کہ فلمساز مجھے اپنی فلموں کے لئے کنسڈر کر رہے ہیں اور میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ فلموں میں کسی شریف زادی کو کوئی گنجائش نہیں!
کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).