مولا جٹ پر مصطفی قریشی کو جواب


یہ 1990 کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان میں سنیما گنڈاسا کلچرمیں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں سید نور صاحب کی فلم جیوا نے شائقین کو ایک بار پھر سے سنیما گھروں کی جانب کھینچا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی فلمیں بننے لگیں۔

اسی زمانے میں ٹی وی پر ایک پروگرام شروع ہوا جس کا نام تھا لالی ووڈ ٹاپ ٹین۔ اگر میری یادداشت میرا ساتھ چھوڑ نہیں گئی تو نادیہ خان اس کی میزبانی کیا کرتی تھیں۔ اس کی ایک قسط میں سید نور صاحب نے کہہ دیا کہ پاکستان کا سنیما یہ ہے جو ہم بنا رہے ہیں۔ گجر اور جٹ کو گنڈاسہ پکڑا کر مار پیٹ دکھانا سنیما نہیں۔

اس پر مشہور پنجابی فلم مولا جٹ کے ہدایتکار یونس ملک نے ایک بیان داغا کہ ہماری فلم مولا جٹ نے پاکستان کے سنیما کو 5 سال چلایا اور وہ کامیاب ترین فلم تھی۔ سید نور ویسی ایک فلم بناکر دکھائیں۔

اس کے جواب میں سید نور نے کہا کہ ”میں بہت ادب سے عرض کروں گا کہ انہوں نے پانچ سال سنیما تو چلایا مگر پاکستان کی فلمی صنعت کو اس گنڈاسہ کلچر سے نکلنے میں ابھی کئی سال اور لگیں گے۔ اسی لیے میں چوڑیاں بنا رہا ہوں تاکہ پنجابی فلموں پر سے گنڈاسہ کلچر کی چھاپ ختم کروں“۔

ہدایتکار بلال لاشاری اور پروڈیوسرعمارہ حکمت نے جب سے مولا جٹ بنانے کا اعلان کیا ہے لاہور میں رہنے والے کئی ماضی کے نامور اداکار و مرحوم فلمی صنعت سے وابستہ افراد کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ آخر کریں تو کیا کریں۔

سلطان راہی کی مولاجٹ سے وابستہ کچھ افراد تو عدالت بھی جاپہنچے کہ اس فلم کو بننے سے ہی روکا جائے تاہم عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی کیونہ مولاجٹ کو لاحقہ یا سابقہ بناکر کئی فلمیں پہلے بھی بن چکی ہیں اس لیے کسی قدغن کا کوئی قانونی جواز موجود ہی نہیں۔

اب حال ہی میں پرانی مولا جٹ میں نوری نت کا کردار ادا کرنے والے مصطفٰی قریشی کو بی بی سی نے موقع دے دیا کہ وہ اپنی بھڑاس نکالیں۔ ایک طرف تو وہ دعا دے رہے ہیں کہ یہ فلم دس سال چلے اور دوسری جانب کہہ رہے ہیں کہ اس فلم کا نام کچھ اور رکھ لیتے۔ مصطفٰی قریشی کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے جو ماضی کے اسٹار شان کے ساتھ رہا ہے۔ یعنی فلم وہ جس میں وہ کام کریں، ورنہ پاکستانی سنیما دفن ہوجائے۔

۔ مصطفٰی قریشی شاید بھول گئے کہ مولا جٹ کے بعد اسی دہائی میں تین فلمیں اس نام سے بن چکی ہیں
مولا جٹ تے نوری نت
مولا جٹ ان لندن
شاگرد مولا جٹ دا

بلکہ اس فلم کے مصنف ناصر ادیب نے 1975 میں ایک فلم وحشی جٹ لکھی تھی جس میں مکھو اور مولا کے کردار موجود تھے۔ اس لیے یہ اعتراض تو قطعاً درست نہیں۔ دوسرا یہ کہ مصطفٰی قریشی کے دور میں جب ایک سنیما میں ایک اسکرین ہوتی تھی اور وہاں بھی صرف میٹنی، ایویننگ اور نائٹ شوز ہی لگتے تھے۔ جبکہ موجودہ دور میں سنیما گھر میں ایک سے زیادہ اسکرینز ہوتی ہیں اور وہاں اوسطاً 5 سے 7 شوز لگائے جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی فلم کا ایک سال چلنا بھی محال ہے کیونکہ اسے لوگوں کی بڑی تعداد دیکھ ہی چکی ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ مولاجٹ کے کردار ماضی سے نکل کر حال میں آجائیں کیونکہ وہ رہ گئے ان کا زمانہ گزر گیا۔

آج کی نئی نسل جس کی عمر 30 سال سے کم ہو مجھے ایک بھی نہیں ملا جس نے مولا جٹ دیکھی ہو۔ تو وہ لوگ پرانی مولا جٹ کو ذہن میں رکھ کر کیوں جائیں گے کہ انہیں مایوسی ہو۔ یہ فلم بلال لاشاری، فواد خان، ماہرہ خان، حمزہ علی عباسی اور حمائمہ ملک جیسے ستاروں کی فلم ہے اور ان میں سے تین تو بالی ووڈ جیسی بڑی صنعت میں اپنا کام منوا چکے ہیں اس لیے کی کا بصد احترام مگر اب آرام کریں۔

بلال لاشاری اور عمارہ حکمت کی فلم ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ کتنے پیسے کماتی ہے اس کی فکر بھی لالی ووڈ والے نہ کریں تو بہتر ہے۔ ان کی معلومات کے لیے ویسی ہی بتا دیتے ہیں کہ صرف چین میں یہ فلم 7600 سنیما میں ریلیز کی جارہی ہے اور اسے 40000 شوز مل رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ہر شو میں اوسط صرف دس ٹکٹ بھی بک جائیں تو یہ فلم اپنے پیسے پورے کرلے گی۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے صرف ٹیزر ہی نے فلم بینوں کا واہ واہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کا ٹیزر ہی ہر طرف نمبر ایک چل رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ فلم ایک صاف ستھرے پنجابی یا پاکستانی سنیما کی بنیاد از سر نو ڈالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).