کیا سوات میں فوجی چھاؤنی کا قیام ناگزیر ہے؟


\"fazleگزشتہ روز قو می اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں ارکانِ اسمبلی کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل محمد عالم خٹک نے کہا کہ سوات میں دہشت گردوں کی واپسی کا خطرہ ہے، اس لیے فوج کا وہاں ہونا اور چھاؤنی کا قیام بہت ضروری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے وہاں کے لوگوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے چھاؤنی کے لیے لینے والی زمین کی قیمت بڑھا دی ہے۔ محمود خان اچکزئی اور شیریں مزاری نے سوات کے علاقہ خوازہ خیلہ میں فوجی چھاؤنی کی مخالفت کی اور کہا کہ جب علاقے کے عوام نہیں چاہتے تو پھر چھاؤنی نہیں بننی چاہئے۔ شیریں مزاری نے یہ بھی کہا کہ لوگ مطمئن نہیں اور اپنی زمین نہیں دینا چاہتے، اس لیے زبردستی ایسا نہ کیا جائے۔

سوات میں 2005ء میں ملا فضل اللہ کا اچانک ظہور، اسے غیر قانونی طور پر ایف ایم ریڈیو کے قیام کی اجازت ، اس کی تقریروں میں اس کی اپنی مرضی کی مذہبی احکام کی تشریح، اسے علاقے میں’’اَمر باالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے تحت مسلح گشت کی آزادی، مام ڈھیرئی میں اس کے پیروکاروں کی بعض لوگوں کو ’’شرعی سزائیں‘‘ اور اس وقت کے کمشنر سید جاوید کا اس کے اقتدا میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی، یہ سب کچھ یک دم یا اچانک رونما نہیں ہوا۔ سوات میں باقاعدہ خفیہ محکموں کے اہل کار موجود تھے، مقامی انتظامیہ فعال تھی اور سکیورٹی ادارے بھی مفلوج نہیں تھے، پھر کیا وجہ تھی کہ ملا فضل اللہ کی سرگرمیوں کا بروقت نوٹس نہیں لیا گیا۔ فضل اللہ کے پاس جدید اسلحہ اور کمیونی کیشن کے لیے وائرلیس سیٹ کہاں سے آگئے تھے؟ اس نے شرعی نفاذ کی آڑ میں جب لوگوں کو گمراہ کیا اور وہ اس کو مسلسل چندہ دے رہے تھے تو کیا حکومت سو گئی تھی؟ سوات کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کے بعد پڑوس میں واقع ضلع شانگلہ اور بونیر میں طالبان کیسے داخل ہوئے جب کہ اس وقت بھی ان کے خلاف فوجی آپریشن چل رہا تھا، فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر محو پرواز رہتے، کیا ان کو طالبان نظر نہیں آ رہے تھے؟ ’’آپریشن راہِ راست‘‘ میں ملا فضل اللہ کے زخمی ہونے اور اسے گرفتار کیے جانے کی اطلاعات کئی دفعہ میڈیا پر پھیلیں لیکن بعد میں عوام کو بتایا گیا کہ ملا افغانستان بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کیا عوام اتنے سادہ لوح ہیں کہ وہ اصل حقائق نہ سمجھ سکیں؟ سوات میں طالبانائزیشن کے حوالے سے بہت سے سوالات ایسے ہیں جو کیے جانے چاہئیں لیکن ملک کے وسیع ترمفاد میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے مصلحتاً خاموش اختیار کیے رکھی ہے۔ وقت اور تاریخ ان سوالات کے جوابات ضرور دیں گے لیکن فی الوقت ان چبھتے ہوئے سوالات کے جوابات اسرار کے پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔

اب آتے ہیں سوات میں فوج کی مستقل موجودگی اور فوجی چھاؤنی کے قیام کی طرف۔ سوات کے جغرافیہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس کی سرحدیں کسی بیرون ملک سے نہیں ملتیں۔ سوات میں طالبانائزیشن کے دوران بھی کسی غیرملکی جنگ جو کی موجودگی ثابت نہیں کی جاسکی ہے۔ تاہم اس اَمر کا امکان ہوسکتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ ’’عناصر‘‘ ان کی مدد و رہنمائی کے لیے موجود رہے ہوں لیکن ملا فضل اللہ کا ساتھ دینے والے بیشتر لوگ سوات سے تعلق رکھتے تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ فوج کی حراست میں ایک تسلسل سے مرنے والے ڈھائی سو سے زائد لوگوں کی نعشیں سوات سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تمام لوگ ’’حسن اتفاق‘‘ سے کسی نامعلوم بیماری یا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔ سوات ریاستی دور سے ایک پرامن علاقہ رہا ہے۔ ملا فضل اللہ کی عسکریت پسندی سے قبل یہاں کبھی بھی مقامی انتظامیہ کے لیے امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ 2 نومبر 1994ء میں مولانا صوفی محمد کے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے کارکنوں نے مقامی انتظامیہ کو مفلوج کرکے سوات کی ضلعی عدالتوں اور ائیرپورٹ پر قبضہ کرلیا تھا لیکن یہ قبضہ سکیورٹی اداروں نے دو دن کے اندر اندر توڑ دیا تھا اور اس کے دوران کوئی خوں ریزی بھی نہ ہوئی تھی۔ اس کے بعد حالات پرسکون تھے۔ اس قبضہ کے حوالے سے بھی ناگفتنی موجود ہے لیکن اس کی حقیقت بھی وسیع تر قومی مفاد کے غِلاف میں لپٹی ہوئی ہے۔

سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کی منظوری پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ صدر زرداری نے 2009ء میں اس کا باقاعدہ \"fazllullah\"اعلان کیا تھا لیکن معتبر ذرائع کے مطابق صدر زرداری نہیں چاہتے تھے کہ سوات میں فوجی چھاؤنی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ عسکری حکام کے دباؤ میں آکر انھوں نے فوجی چھاؤنی کا اعلان تو کردیا لیکن انھوں نے مطالبہ کے باوجود اس مقصد کے لیے اپنے دورِ حکومت میں رقم مختص نہیں کی تھی۔ سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کے حوالے سے اس وقت کے صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیرا علیٰ امیر حیدر خان ہوتی سے بھی مبینہ طور پر رائے طلب کرلی گئی تھی لیکن انھوں نے سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوات ایک پرامن علاقہ رہا ہے، اس کی سرحد کسی بیرون ملک سے بھی نہیں ملتی، اس لیے وہاں فوجی چھاؤنی کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ اگر پھر بھی عسکری حکام ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی چھاؤنی کا قیام ضروری سمجھتے ہیں تو اس کے لیے مناسب مقام ضلع دیر میں کہیں ہوسکتا ہے جہاں قریب ہی باجوڑ ایجنسی کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اگر وہاں سے کوئی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہونا چاہے تو بروقت کارروائی ممکن ہوسکے گی۔ لیکن شاید عسکری حکام کسی سرحدی علاقے میں فوجی چھاؤنی کے قیام سے متفق نہیں تھے، اس لیے وزیرا علیٰ کی تجویز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔

سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کے حوالے سے اہل سوات کے بھی تحفظات موجود ہیں۔ ’’سوات قومی جرگہ‘‘ نے متعدد بار فوجی چھاؤنی کے قیام کی برملا مخالفت کی ہے۔ سوات کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فوج نے بڑی بہادری سے اہل سوات کو طالبان کے ظلم و ستم سے نجات دلا دی ہے، اب سوات میں طالبان کا وجود ختم ہوچکا ہے، اس لیے فوج کو سوات سے واپس جانا چاہئے۔ امن و امان کو پائیدار بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ پر اعتماد بھی کرنا چاہئے اور اس حوالہ سے اسے سہولتیں اور فری ہینڈ بھی دینا چاہئے۔سوات میں مجوزہ فوجی چھاؤنی تین مقامات پر وجود رکھے گی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر خوازہ خیلہ کے ٹیٹا بٹ نامی علاقہ میں قائم کیا جا رہا ہے جہاں پاک فوج نے خواتین کے ایلمنٹری کالج جو بعد میں گرلز ڈگری کالج بنا، کی خوب صورت بلڈنگ میں کئی برس سے اپنا عارضی ہیڈ کوارٹر بنا رکھا ہے۔ اس مقام پر فوجی حکام نے علاقے کے مکینوں کے باغات اور زرعی زمینیں اپنے قبضے میں لے لی ہیں جب کہ مجوزہ فوجی چھاؤنی کے لیے 38 ایکڑ زمین خریدی جا رہی ہے۔ فوجی حکام کی کوشش تھی کہ یہ زمین تیس روپے فی سکوئر فیٹ کے حساب سے خرید لی جائے لیکن مقامی لوگوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہم اپنی زمینیں تین ہزار روپے سکوئر فیٹ کے حساب سے بھی فروخت نہیں کریں \"PIctureگے۔ عوامی احتجاج کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعد ازاں فوج زمین مارکیٹ ریٹ پر لینے پر تیار ہوگئی۔ چھاؤنی کا ایک حصہ ’’برہ بانڈئی‘‘ کے قرب میں واقع ’’سی گرام‘‘ میں ہوگا جب کہ ضلع شانگلہ میں بھی اس کی ایک شاخ قائم کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بری کوٹ میں واقع مردانہ ایلمنٹری کالج بھی پاک فوج کے قبضہ میں ہے۔ اس طرح آسٹریا کی حکومت کے تعاون سے سوات کے ’’گلی باغ‘‘ نامی گاؤں میں ’’پیتھام‘‘ کے نام سے ٹوورزم اینڈ ہوٹل منیج منٹ کا ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا تھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کا ایک منفرد ادارہ ہے لیکن اس کی بلڈنگ بھی پاک فوج کی تحویل میں ہے اور اسے مقامی طالبان کی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سوات کی ضلعی عدالتوں میں واقع سرکٹ ہاؤس بھی 2007ء سے پاک فوج کے زیراستعمال ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی تک جانے والی سڑک سات آٹھ سال تک بند رہی تھی اور اس کی وجہ سے مقامی رہائشیوں کے لیے غیرمعمولی مشکلات پیدا ہوگئی تھیں، اب اس سڑک کو عوام کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے لیکن سویلین آبادی کے بیچ فوج کی موجودگی عوام کے لیے بہت سی مشکلات اور مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ ان مقامات کے علاوہ بھی سوات بھر میں فوج نے بعض سرکاری اور عوامی عمارتوں میں رہائش اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ان عمارتوں سے متعلقہ افراد کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ سیدو شریف ائیرپورٹ کو آرمی ائیر بیس میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے لیکن وہاں کے مکینوں سے طاقت کے بل بوتے پر زمینیں اور آباد مکانات کوڑیوں کے مول لے لیے گئے ہیں۔ یہ تمام تلخ حقائق اس اَمر کا ثبوت ہیں کہ سوات میں فوجی چھاؤنی عوام کی خواہشات کے برعکس بنائی جا رہی ہے۔

اوّل تو سوات میں فوجی چھاؤنی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ حکام کا یہ کہنا غلط ہے کہ اگر فوج سوات سے چلی گئی تو طالبان واپس لوٹ آئیں گے۔ پشاور، مردان ، لاہور اور کراچی وغیرہ میں باقاعدہ فوجی چھاؤنیاں موجود ہیں لیکن وہاں بھی تو طالبان اپنی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ وہاں بھی معمول بن چکی ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ تو کور کمانڈر کے دفتر کی بغل میں ہوا ہے۔ کیا فوجی چھاؤنی کی موجودگی آرمی پبلک اسکول کو طالبان کے حملہ سے محفوظ رکھ سکی تھی؟ دہشت گردی پر قابو پانے یا کسی علاقے میں مستقل قیام امن کے لیے اگر ہر جگہ فوجی چھاؤنیاں قائم کی جانی لگیں تو یوں تو پورا پاکستان فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوجائے گا۔ سوات میں اوّل تو طالبان کی واپسی کا کوئی خطرہ موجود نہیں کیوں کہ سوات میں طالبانائزیشن کی حقیقت کے حوالے سے عوام میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لیکن فوجی چھاؤنی کے باوجود اگر امن و امان کی صورت حال اَبتر رہی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس وقت سوات میں ہر ماہ مقامی سیاستدانوں، پولیس کے اہل کاروں، سول سوسائٹی کے اہم لوگوں اور امن کمیٹی سے وابستہ افراد میں سے کسی نہ کسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس وقت سوات میں فوج ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہر اہم مقام پہ ان کی سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی قائم ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی ٹارگٹ کلر کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سوات میں اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہلاک کیا جاچکا ہے۔ عوام میں یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ حالات کو دانستہ طور پر بگاڑا جا رہا ہے تاکہ سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کے لیے جواز پیدا کیا جاسکے۔

اہل سوات نہایت محب الوطن اور پرامن لوگ ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی مرکز گریز پالیسی کے حامل لوگوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ رمضان اور

\"Pakistani

عید پورے صوبہ میں مفتی پوپلزئی کے اعلان کے مطابق ہوتے ہیں لیکن سوات میں لوگ ہمیشہ سے حکومت کے اعلان کے مطابق روزہ رکھتے اور عید مناتے رہے ہیں۔ خفیہ ہاتھ نے سوات میں ملا فضل اللہ کے ذریعے حالات میں ایسی جوہری تبدیلی پیدا کی کہ سوات میں فوجی آپریشن اور چھاؤنی کے قیام کے لیے حالات سازگار بنا دئیے گئے۔ اگر ریاست چاہتی تو وہ ابتداء ہی میں ملا فضل اللہ کو اس کے نام نہاد پیروکاروں سمیت جیل میں ڈال سکتی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔ سوات کے لوگوں کو فوجی آپریشنوں کے دوران یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ یہ پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے اور اہل سوات ملک کی حفاظت کے لیے قربانی دے رہے ہیں جس کا انھیں صلہ دیا جائے گا لیکن صلے میں اہل سوات کو ان کے اپنے ہی علاقے میں محبوس اور اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ ہر قدم پر انھیں اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے اور انھیں فوجی جوانوں کو ہر چیک پوسٹ پر بتانا پڑتا ہے کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ سوات کے لوگ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی قربانی بہ خوشی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن شورش کے دوران دانستہ طور پر عام لوگوں کا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان کیا گیا ہے۔ سکیورٹی اہل کاروں نے بعض مواقع پہ پختون روایات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے گھروں کی چادر و چاردیواری کے تحفظ کا بھی خیال نہیں رکھا ہے۔ چیک پوسٹوں پر پرامن عوام کے ساتھ اب بھی جارحانہ اور نامناسب سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاک فوج فاتح ہو اور سوات کے عوام مفتوح ہوں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کی خاطر اپنے ہی عوام کو عسکری طالبانی چکی کے دو پاٹوں میں پھنسا لیا گیا ہو۔

حکومت اگر سوات میں فوجی چھاؤنی کی بجائے ایک سپیشل فورس قائم کرے اور اسے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کی خصوصی تربیت دے تو سوات میں امن و امان کی صورت حال پائیدار بنیادوں پر قائم رہ سکتی ہے۔ اس صورت میں حکومت فوجی چھاؤنی کے اضافی اخراجات سے بھی بچ جائے گی اور پاک فوج اور عوام کے درمیان مزید بد اعتمادی بھی نہیں پنپ سکے گی۔ پھر بھی اگر عسکری حکام یہ سمجھتے ہیں کہ سوات میں فوجی چھاؤنی کا قیام ناگزیر ہے تو اس کے لیے خوازہ خیلہ میں سویلین آبادی کے بیچ چھاؤنی کا ہیڈ کوارٹر ہرگز قائم نہیں کرنا چاہئے۔ ایک تو سوات میں ویسے بھی میدانی علاقہ کم ہے، زرعی زمینیں مسلسل ختم ہو رہی ہیں اور پھر فوجی ہیڈ کوارٹر کے لیے مقامی لوگوں کی رضامندی کے بغیر وسیع زمینیں لی جا رہی ہیں جس سے لوگوں میں شدید ردِعمل پایا جاتا ہے اور پھر آبادی کے درمیان فوج کا قیام کئی طرح کے سماجی اور سیاسی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے عسکری حکام کو آبادی سے دور پہاڑوں کے دامن میں واقع کسی غیرآباد مقام پر چھاؤنی کا قیام ممکن بنانا چاہئے۔ ایک تو اس طرح سوات کی زرعی زمین اور پھلوں کے باغات بچ سکیں گے اور دوسرا غیرآباد علاقوں تک انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکے گا۔ سوات پاکستان کا حصہ ہے، پاک فوج وطن عزیز کے چپے چپے کی پاسبان ہے، اس لیے سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام سے کوئی اسے روک نہیں سکتا لیکن اس کے لیے علاقے کے عوام کی رضا مندی اور مناسب مقام کا تعین ضروری ہے۔ ورنہ سوات میں مقیم فوج اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے جس کا ایک مظہر گزشتہ دنوں خوازہ خیلہ میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف لوگوں کے پرامن احتجاج پر فوجی جوانوں کا بہیمانہ تشدد اور اس کے نتیجے میں پورے علاقے میں فوج کے خلاف شٹر ڈاؤن کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ عسکری حکام کو اس طرح کے ردِ عمل کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ انھیں سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کے حوالے سے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments