محمود خان اچکزئی نے کچھ ایسا غلط نہیں کہا


\"wisiہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ محمود خان نے خیبر پختونخوا کو افغانستان کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ وہ اپنے بیان کی تردید کر چکے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر اسی بیان کو لے کر ان کی آؤ بھگت جاری ہے۔ ضرور جاری رکھیں، کچھ گزارشات مگر پڑھ لیں۔

کسی بھی پاکستانی پختون کا ڈومیسائیل چیک کریں۔ اس کا تعلق کسی بھی پختون قبیلے سے ہو۔ اپنی قوم وہ افغان ہی لکھے اور بتائے گا۔ پاکستان میں پختونوں کی تعداد آبادی کا تقریبا چودہ فیصد ہے۔ پاکستان میں رہنے والے پختون دنیا میں بسنے والی کل پختون آبادی کا تقریبا نصف ہیں۔ بات کو آسان کرنے لئے یہ سمجھ لیں کہ جتنے پختون افغانستان میں رہتے ہیں، اتنے ہی پاکستان میں بھی ہیں۔

پختون جہاں بھی آباد ہیں افغانستان ہو یا پاکستان یہ اپنی سرزمین پر ہی صدیوں سے آباد ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں پختون اکٹھے ہی رہتے آئے ہیں۔ گو کہ یہ آپس میں مستقل لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہے۔ انکی آپسی جنگوں کے حوالے سے ایک مشہور کہاوت بھی ہے۔ افغان تب ہی سکون سے ہوتے ہیں جب یہ جنگ میں مصروف ہوں۔

افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کا اعزاز حاصل کیا۔ ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں اس مخالفت کی وجہ سے واقف نہیں ہیں۔

انگریزوں نے افغانستان سے تین جنگیں لڑی تھیں۔ یہ جنگیں اٹھارہ سو بیالیس اٹھارہ سو اسی اور انیس سو انیس میں لڑی گئیں۔ اٹھارہ سو اسی والی انگریز افغان جنگ میں انگریزوں کی شکست کا باعث ایک لڑکی بنی۔ اس لڑکی کا نام ملالہ تھا اور اس کا تعلق میوند سے تھا۔ پشتو کی فوک شاعری میں ملالہ ایک بہادر علامت ہے۔ یہی شاعری جب ملالہ یوسفزئی پر فٹ ہونے لگی تو طالبان کو اس پر گولی چلانی پڑی۔ جو سیدھی انہی کو واپس جا کر لگی، خیر۔

ہم نے صرف اتنا ہی پڑھا کہ افغانوں کے ہاتھوں انگریزوں نے تینوں بار شرمناک شکست کھائی۔ ہمیں یہ کم ہی بتایا گیا کہ پھر انگریزوں نے افغانوں کا کیسے حشر کیا۔ انگریزوں نے چن چن اپنی شکست کے ذمہ داروں سے بدلہ لیا۔ افغانوں کو تقسیم کرنے کے لئے ڈیورنڈ لائین کا معاہدہ کیا۔

اس معاہدے نے افغانوں کو تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا۔ افغانستان سے برٹش انڈیا کو ڈیورنڈ لائین کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔ پختونوں کو آپس میں فاٹا اور این ڈبلیو ایف پی میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں شمال جنوب میں بھی تقسیم کر دیا گیا۔ جنوب میں رہنے والے ہی آج بلوچستان میں رہتے ہیں۔

قیام پاکستان کو افغان انگریز کی پختونوں میں کی جانے والی تقسیم کو مستقل کرنے کی سازش سمجھتے تھے۔ اسی فرسٹریشن میں انہوں نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں مخالفت کی۔

یہ تقسیم بہت ہی دلچسپ ہے۔ افغان صدر اشرف غنی احمد زئی وزیر ہیں۔ ہمارے جنوبی وزیرستان والے وزیروں کے ہم قبیلہ۔ اٖفغان کابینہ اہم سرکاری اہلکاروں کے پختون اراکین میں سے اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی پاکستانی پختون قبیلے سے ہے۔ یہ کوئی معطل یا ٹوٹا ہوا تعلق نہیں بلکہ یہ باہمی رشتہ داریوں کاروباری تعلقات اور قبائیلی دشمنیوں تک میں مستقل برقرار ہے۔

یہ تو افغانستان کے پختونوں کا تعلق ہے۔ پاکستانی پختونوں کا بھی افغانستان میں تعلق ہے۔ وہاں جب بھی لویا جرگہ ہو گا پاکستانی قبائل سے مشران کے بغیر اس کی حیثیت مشکوک ہی رہے گی۔ ہمارے اکثر قبائل سے معتبرین لویا جرگہ کہ ممبر ہیں۔ یہ ممبر شپ ان کو وراثت میں ملی ہے۔ پاکستان میں آفریدی ایک ایسا قبیلہ ہے جو سارے کا سارا ہی پاکستان میں آباد ہے۔ اس قبیلے کی بھی لویا جرگہ میں نمائندگی موجود ہے۔

طالبان کے خلاف قندھار میں کئی افراد نے ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک مشہور نام جنرل رازق کا ہے۔ یہ حمید زئی ہیں اور ہمارے محمود خان اچکزئی بھی حمید زئی ہیں۔ آپ انہیں کزن ہی سمجھیں۔

اٖفغان مہاجریں یقینا پاکستانی معیشت پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہیں۔ انہیں واپس ہی جانا ہے اگر نہ جانا چاہیں تو بھجوانا ہو گا۔ بلوچستان میں بلوچ افغان مہاجرین کی وجہ سے وہاں مقیم پشتوںوں کے ہاتھوں اقلیت بننے کے خدشے کا بھی شکار ہیں۔

پاکستان کو باڈر مینیجمنٹ بھی کرنی ہے کہ بہرحال ہمیں اپنی سرحد کا احترام کروانا ہے۔ لیکن مسئلہ بہت نازک ہے دونوں طرف بسنے والے پختون (افغان) آپس میں بہت گہرے جڑے ہوئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی جب پختونخواہ کو افغانوں کا گھر بتاتے ہیں تو غلط نہیں کہتے۔ یاد رہے کہ جب وہ پختون خواہ کہتے ہیں تو بلوچستان والا پختون ایریا بھی مراد ہوتا ہے۔

محمود خان اچکزئی کا پختون خواہ کو افغانوں کا گھر کہنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ وہ افغانوں کے جذبات کو نارمل کر رہے ہیں۔ افغانوں کو یاد دلا رہے ہیں متوجہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ بھی رہتے ہیں اور بہت اہم ہیں۔ پاکستان افغانستان کو مشکل فیصلے کرنے ہیں جو جذبات بھڑکائیں گے۔ ایسے میں محمود خان، اسفند یار، مولانا فضل الرحمن اور افغان قیادت ہی لوگوں کو نارمل رکھ سکے گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments