ہم سب کا دم توڑتا معاشرہ


جب کوئی معاشرہ تنزلی کی جانب گامزن ہوتا ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مگر سردست اس معاشرے سے اخلاق روٹھتا ہے تو انصاف کا جنازہ بھی اٹھ جاتا ہے اور ظالم کا ظلم پوری آب و تاب سے جاری و ساری رہتا ہے، مظلوم کی کراہیں اور آہ زاریاں جاری رہتی ہیں مگر اس زوال پذیر معاشرے میں وہ کسی کو سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی دکھائی۔

پھر یہ ہوتا ہے کہ وہاں دلیل دم توڑ جاتی ہے، غلیل کی بات کو حق سمجھا جاتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے کہ دلیل والے منہ چھپائے پھرتے ہیں جبکہ غلیل والے بھاری بھرکم بوٹوں سے انصاف کو روندتے ہوئے بھنگڑا ڈالے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارا دیس، ہمارا معاشرہ، ہمارا قانون، ہماری مرضی۔

مکالمے کی فضا ختم ہو جاتی ہے اس کے برعکس گرجنے والے کی خالی بات وزنی بن جاتی ہے اور وہ وزن جب انصاف کے ٹوٹے ترازو میں ڈالا جاتا ہے تو پھر ظالم کا پلڑا بھاری ہوتے ہی انصاف کے ڈسے ہوؤں کے کانوں میں صدا گونجتی ہے کہ کیا خوب انصاف ہوا ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوا ہے مگر پانی میں دودھ کی آمیزش نے اسے بھی دودھ بنا دیا کہ صاحب عدل کے کرشمے ہیں کہ دنیا دنگ ہو جاتی ہے۔

معاشرہ جب زوال پذیر ہوتا ہے تو نکمے لوگ آپ کے حاکم بن جاتے ہیں اور محکوم بس جالب کا یہ شعر گنگناتے دکھائی دیتے ہیں۔
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ

معاشرے کی زوال پذیری میں حق بولنے والے کرداروں کی زبان بندی کر دی جاتی ہے اور جو دیوانے چپ کا روزہ توڑتے ہیں تو انہیں زنداں میں ڈال دیا جاتا ہے کہ نہ رہے بانس، نہ بجائے بانسری۔ کبھی زنداں میں ڈالنے کی نوبت نہیں آتی کہ یہ پاگل ہیں اور دیوانوں کو باؤلا کتا جانتے ہوئے مار دیا جاتا ہے۔

معاشرے کی زوال پذیری میں کردار ادا کرنے والا وہ طبقہ بھی ہے جو تصویر کا صحیح رخ دکھاتا ہے جب کہ غلط پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے بھی اوکے دکھلاتا ہے کہ سب اچھا ہے، صاحب جی، آپ تاقیامت سلامت رہیں، آپ کے دور میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے، جب کہ آپ سے قبل تو یہاں بے چینی و ہیجانی کیفیت تھی، جناب کا اقبال بلند رہے۔

قلم کے تاجر بھی معاشرے کی تنزلی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اپنے قلم کو حکام کی قصیدہ گوئی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کا قلم ظالم کی مدح سرائی کرتا ہے اور مظلوم پہ ہونے والے ظلم پر اس قلم کی سیاہی خشک ہو جاتی ہے اور کبھی اس کی نب ٹوٹ جاتی ہے، وہ صرف قصیدہ گو ہوتا ہے جس کا کام صرف حکمران طبقہ کی تعریف و توصیف لکھنا ہوتی ہے، اس کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ منفی کو ”مثبت“ بنا کر پیش کرنا ہے۔

معاشرے کی زوال پذیری کا ایک سبب وہ نصاب بھی ہے جس سے بچوں کے کمزور اذہان کو ہپناٹائز کر کے ان کے دماغوں میں اپنی مرضی کا سبق ٹھونسا جاتا ہے کہ ذہنی نشوونما بھی ہماری مرضی کی ہو۔

زوال پذیر معاشرے میں ضمیر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، کبھی اس کی خاموش سسکی کی نحیف صدا گونج کر پھر چپ ہو جاتی ہے اور آخری ہچکی لے کر ضمیر صاحب دم توڑ جاتے ہیں کہ یہ معاشرہ ضمیر سے عاری لوگوں کا ہے یہاں وہ کیونکر بسیرا کر پائے سو وہ جلد انجام کو پہنچ جاتا ہے۔

مندرجہ بالا وجوہات معاشرے کی تنزلی کا باعث بنتی ہے مزید بھی اس طرح کی کئی وجوہات ہیں اور زوال پذیر معاشرے کو تعمیر کرنے کے لیے اور مثبت رخ پہ لے کر جانے کے لیے مندرجہ بالا باتوں کا تضاد کر لیں تو امید ہے کہ معاشرہ ترقی پذیر ہو جائے گا اور وہ دن دور نہیں رہے گا جب شب کی تاریکی میں طلوع سحر نمودار ہوگی تو یہی معاشرہ ترقی یافتہ کی صف میں کھڑا ہو گا مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ ہر فرد کو اس میں کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).