پاکستان میں خواتین مانع حمل کے کون سے طریقے استعمال کرتی ہیں؟


مانع حمل

پاکستان میں مانع حمل کے طریقۂ کار میں سب سے زیادہ مقبول طریقہ مردانہ کونڈوم اور مستقل روک تھام کے لیے خواتین کی نس بندی ہے۔

یہ معلومات پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 میں فراہم کی گئی ہیں۔ یہ سروے پاکستان میں شادی شدہ خواتین کے انٹرویوز کی بنیاد پر مرکب کیا جاتا ہے۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ صرف 34 فیصد خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے مختلف طریقۂ کار استعمال کرتی ہیں جن میں عارضی طریقۂ کار میں کونڈوم کے علاوہ ٹیکے اور مانع حمل گولیوں کا استعمال شامل ہے۔ مستقل حل کے لیے عام طور پر سرجری کے ذریعے خواتین کی نس بندی کی جاتی ہے۔

مردانہ کونڈوم

ماہرین کا کہنا ہے کہ کونڈوم کا استعمال مانع حمل کا ایک نہایت محفوظ اور موثر طریقہ ہے۔ اس کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں اور کونڈوم ہی وہ واحد طریقہ ہے جو نہ صرف حمل سے بچاتا ہے بلکہ ایچ آئی وی اور ایڈز کے ساتھ دیگر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے خطرات کی روک تھام میں مدد کرتا ہے۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق 15 سے 19 سال کی سات فیصد شادی شدہ خواتین کونڈوم کے استعمال کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ 40 سے 49 سال کی 37 سے 48 فیصد مانع خواتین حمل کے لیے کونڈوم استعمال کرنا پسند کرتی ہیں۔

سروے کے مطابق تعلیم میں اضافے سے کونڈوم کے استعمال کی شرح میں بھی اضافہ نظر آتا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ خواتین میں اس کے استعمال کی شرح 4.5 فیصد ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں 18 فیصد نے بتایا ہے کہ وہ کونڈوم استعمال کرتی ہیں۔

اسی طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی خواتین میں 11 فیصد اور امیر گھرانوں میں 15 فیصد خواتین کونڈوم کا استعمال ہے۔ شہری علاقوں میں 12 فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف سات فیصد خواتین کونڈوم استعمال کرتی ہیں۔

پاکستان کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد میں کونڈوم کا سب سے زیادہ استعمال دیکھنے میں آیا۔

  • اسلام آباد 18.7 فیصد
  • پنجاب 10 فیصد
  • خیبر پختونخواہ 9.6 فیصد
  • سندھ 6.8 فیصد
  • بلوچستان 5.4 فیصد
  • فاٹا میں 2.9 فیصد

علاقہ شہری ہو یا دیہی، کونڈوم تقریباً ہر میڈیکل سٹور اور کریانے کی دکان پر دستیاب ہوتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز پر یہ مفت بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

مانع حمل

مانع حمل گولیاں

یہ گولیاں حمل کی روک تھام کا موثر اور محفوظ طریقہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کا استعمال بھی نہایت آسان ہے: روزانہ صرف ایک گولی کھانی پڑتی ہے اور گولیوں کا استعمال ترک کر دینے سے حمل دوبارہ بغیر کسی تاخیر اور رکاوٹ کے ہو سکتا ہے۔

پاکستان ڈیمو گرافک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 30 سے 34 سال کی خواتین میں ہی یہ طریقہ قدرے مقبول ہے۔ اس عمر کی تقریباً 2.5 فیصد خواتین ان گولیوں کا استعمال کرتی ہیں جبکہ دیگر عمر کی خواتین میں اس طریقے کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ گولیاں استعمال کرنے والی خواتین کی شرح کچھ یوں ہے:

  • اسلام آباد 4.3 فیصد
  • سندھ اور خیبر پختوا خواہ 2.3 فیصد
  • پنجاب ایک فیصد
  • بلوچستان 2.7 فیصد
مانع حمل

مانع حمل ٹیکے

حمل سے بچاؤ کے لیے ٹیکے کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹیکے دو سے تین ماہ تک حمل سے تحفظ فراہم کسکتے ہیں اور یہ طریقہ خاص طور پر دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے موثر اور محفوظ ہے۔

سروے کے مطابق یہ مانع حمل کا تیسرا مقبول ترین طریقہ ہے۔ اسے استعمال کرنے والوں میں 30 سے 34 سال کی خواتین کی شرح 3.2 فیصد ہے جبکہ 40 سے 44 سال کی 2.3 فیصد خواتین یہ طریقہ استعمال کرتی ہیں۔

ناخواندہ خواتین میں اس کی شرح استعمال 3.2 فیصد اور بظاہر اعلی تعلیم یافتہ خواتین اس طریقے کو سب سے کم استمال کرتی ہیں، یعنی صرف 0.9 فیصد۔

مانع حمل

نس بندی

نس بندی اُن شادی شدہ خواتین کے لیے مستقل مانع حمل کا طریقہ ہے جو مزید بچے نہیں چاہتیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ نس بندی سے جنسی صلاحیت یا احساسات پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ ہی اس سے عورت کو کسی طرح کی کمزوری یا تکلیف کی شکایت ہوتی ہے۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق خواتین میں نس بندی مانع حمل کی روک تھام کا دوسرا سب سے مقبول طریقہ ہے۔

رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق نس بندی کا رجحان 25 سے 29 سال کی 3.4 فیصد خواتین میں نظر آتا ہے جبکہ 40 سے 45 سال کی عمر کی خواتین میں یہ شرح 12 سے 21 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

شرح خواندگی کے حساب سے 10 فیصد ناخواندہ خواتین اور 6.5 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین یہ طریقہ اپناتی ہیں۔ کم آمدنی والے گھرانوں میں اس طریقے کی مقبولیت 7.4 فیصد خواتین میں ہے اور امیر گھرانوں میں 9.3 فیصد خواتین نس بندی کرواتی ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں نس بندی کروانے والی خواتین کی شرح:

  • پنجاب اور سندھ 10 فیصد
  • اسلام آباد 9.3 فیصد
  • خیبر پختونخواہ 4 فیصد
  • بلوچستان 2.4 فیصد

مانع حمل

مردانہ نس بندی

مانع حمل کے لیے مردانہ نس بندی کا بھی طریقۂ کار موجود ہے، تاہم یہ زیادہ مقبول نظر نہیں آتا اور صرف 0.1 فیصد گھرانے اس طریقے کو اپناتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کے مطابق پاکستان میں بسنے والی ہر پانچ میں سے ایک عورت زچگی سے محفوظ رہنا چاہتی ہے لیکن اسے مانع حمل کے موثر طریقوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp