علی رضا عابدی: ادھورا سفر چھوڑ کے جانے والے


غالبا 1998 کی بات ہوگی، جب رضا بھائی اور تانیہ کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی گئی، میرے کالج کے دنوں کی بات تھی۔ گھلنے ملنے اور ہنس مکھ رضا بھائی اور اتنی ہی بھلی مانس تانیہ، دونوں ہی کم عمر تھے، وہ کالج کے کلاس فیلو زیادہ اور میاں بیوی کم لگتے تھے۔ اس وقت میں غیر شادی شدہ تھی اور ان کی شادی نے میرے اندر سے اینٹی شادی خیالات میں کافی کمی کی۔ اس کے بعد 2005 تک میری رہائش کراچی میں تھی اور اس فیملی سے رشتہ داری اور دوستی کی بنیاد پر ملاقات رہتی۔

ان دنوں مجھے سیاسی اور ملکی حالات کا نہ کوئی خاص ادراک تھا اور نہ ہی شوق تھا۔ ایسے میں جو بھی تعلق تھا وہ ذاتی نوعیت کا تھا۔ دونوں ہی میاں بیوی اپنے بچوں سے بے حد پیار کرنے والے اور منکسر طبیعت کے مالک، بچوں کی سالگرہ پر بچوں سے بھی زیادہ خوش ہونے اور جانثار والدین۔ ، بریانی آف سیز کے آغاز پر مجھے بھی کچھ سوغات تحفتاً ملیں، ایسی بہت سی یادوں کی لہریں بند توڑ کر ذہن میں مرتعش ہیں۔ لاہور واپس آنے کے کچھ عرصے کے بعد ان کو ٹی وی پر سیاسی طور سے متحرک دیکھا۔

سیاسی وابستگی سے اختلاف یا حمایت سے درکنار، رضا بھائی کے بیانات میں سیاسی متانت تھی۔ آج تک کبھی کسی شو پر ان کو اخلاق سے گری زبان استعمال کرتے ہوئے نہ سنا، کبھی آسیتین چڑھا کر غصہ کے کف اڑاتے نہ دیکھا، ان کا پڑھا لکھا اور خاندانی پن گفتگو، لباس اور ان کی مسقل سی مسکراہٹ سے ہی عیاں تھا۔ ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان پیشہ ور سیاستدان ہیں، سیاست کی آڑ میں کافی کچھ درپردہ چل رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک ینگ اینٹر پنیور کا سیاسی فورم پر بات کرنا کافی خوش آئند تھا۔

اسمبلی کے فورم پر موجود چند پڑھے لکھے افراد میں سے وہ ایک تھے، منظور پشتین کی مسنگ افراد کی کمپین کی بات ہو یا، پروفیشنلز کے لیے فورم کی بات، فرقہ واریت کے خلاف رائے یا پھر انتہا پسندی کے خاتمہ کا ذکر ہو ان کی آواز ہمیشہ بلند اور نمایاں تھی۔ اگر کوئی شخص مخالف خیالات کا حامی ہو تو ہم اس کو سر سے پاؤں تک نفی کردیتے ہیں دراصل ہم سب خود پرستی کے عشق کا شکار ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سے وابستگی، ان کے سیاسی خیالات ان کا مکمل ذاتی حق تھا۔

آج ان کے قتل اور بے وقت موت نے بہت سے پرانے سوالوں کو پھر سے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ کیا انسان کی جان اس ملک میں اس قدر سستی ہے کہ، کسی کے جانے کے بعد ہی وزیر اعلی کو نوٹس لینے کا ہوش آتا ہے۔ پرائم ٹائم پر نہایت زور و شور سے بحث جاری رہے گی اور پھر دوبارہ سب بلوں میں گھس جائیں گے۔ ٹاک شو کو دو دن بعد ایک نیا ٹاپک مل جائے گا اور کمرشل ریٹنگ کے لیے پرانا ٹاپک بے کار ہو جائے گا۔ ایک رسمی بیان آئے گا؛ حکومت نہایت غم و غصے کا اظہار کرتی ہے، قاتلوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان کے خاندان کے ساتھ رسمی الفاظ میں افسوس کرنا کیا ان کے دکھ اور کمی کا مداوا ہے؟ زندگی کے کتنے موڑ پر ابھی ان کے ساتھ کی ضرورت تھی۔ بہادر شخص تھے، خود نہیں رہے مگر بچوں اور بیوی کو ہمت اور دلیری کی مثال اپنی مسقل سیاسی جدوجہد سے بلعمل سکھا گئے ہوں گے۔

اس دوران کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ، سیاسی راہ گزر کا انجام کچھ کشت و خون پر ہی ہوتا ہے، ایسے لوگوں پر اللہ رحم کرے، کیونکہ وہ مقتول کو خود اس کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ تمام لوگ ایک جیسی زندگی گزرانے کے لیے نہیں پیدا ہوتے، ہر شخص کی اپنی سوچ اور پسند ہے۔ ہر شخص کے سیاسی، مذہبی، ذاتی اور دیگر عقائد ہیں، اس کو بھر پور حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تمام تر عقائد پر عمل جاری رکھے۔ یہ کوئی نئی سوچ نہیں، کیونکہ ریپ کا ذمہ دار وکٹم کو، ہراسمنٹ کا ذمہ عورت کو، قتل کا ذمہ دار مقتول کو ٹھہرانا ہمارا قومی المیہ اور رویہ ہے۔

سفر کو ادھورا چھوڑنے کے سدباب کے لیے، کب اقدام ہوگا، وہ کون سا دن ہوگا جب قتل جیسے گھناؤنے جرم سے ہمارے اخبارات کے صفحوں کی سیاہی بھرنی بند ہوگی۔ اس سب کے بعد اخبار کے پچھلے صفحے پر خبر آئے گی کہ؛ کچھ نامعلوم افراد نے فلاں فلاں کو قتل کردیا۔ مرنے والا کیونکہ کوئی غیر معروف شخصیت ہوگی اس لیے ٹاک شو میں ذکر تک نہیں ہو گا۔

بیک وقت ہم پالتو سانپ رکھتے ہیں اور پھر اس کے ڈسنے پر واویلا کرتے ہیں۔ سخت طرز عمل کی دھمکی دیتے ہیں، شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہیں اور آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ آہنی ہاتھ  آج تک کبھی نظر نہ آسکے۔ آج بھی اندر خانے سرگوشیاں کرتے ہوئے ہم آواز بلند کرنے والے کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ہم مار دیتے ہیں، کچھ بے حس اور مردہ ہیں، باقی جو بچ گئے وہ یہ دیکھ کر روز روز مرتے ہیں۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).