سوہا نے اپنی پاکبازی کیسے ثابت کی؟


سوہا کمرے میں داخل ہوئی تو کئی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں۔ ”لیجئیے آ گئی سوہا بیٹی۔ “ اس کی ماں نے خوشگوار لہجے میں اطلاع دی۔ کمرے میں بیٹھے سب افراد اسی کی آمد کے منتظر تھے۔ بار بار دروازے کی طرف دیکھتے بھی رہے تھے۔ پھر بھی جیسے چونک اٹھے۔ سوہا نے سلام کیا اور اپنی امی کے پاس بیٹھ گئی۔ ”اچھا اچھا! بیٹی کیسی ہو؟ “

شائستہ بیگم نے پوچھا۔ وہ اپنے بیٹے وقار کا رشتہ لے کر آئی تھیں۔ ”جی میں ٹھیک ہوں۔ “ سوہا نے جیسے رٹا رٹایا جواب دیا۔ اس دوران وقار چوری چوری اسے دیکھ رہا تھا۔ ”آپ چائے لیجیے ناں“ سوہا کی ماں نے جیسے یاد دلایا۔ چند لمحوں کے لئے کمرے میں فقط چائے کی پیالیوں کی کھنک اور چمچہ ہلانے کی آوازسنائی دیتی رہی۔

حالاں کہ اس سے پہلے باہمی دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ آخر اس خاموشی کو خالہ بی نے توڑا وہی ان دو خاندانوں کو یکجا کرنے کا سبب بنی تھیں۔ دونوں خاندان ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے لیکن خالہ کا دونوں طرف آنا جانا تھا۔ اگر خالہ نہ ہوتیں تو یہ خاندان کبھی نہیں مل سکتے تھے۔

” بیٹا وقار کو اپنے آسٹریلین طوطے نہیں دکھاؤ گی جو تم نے پالے ہوئے ہیں؟ “ خالہ نے پیار سے کہا۔ سوہا نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ ”ہاں بیٹا جاؤ، انہیں طوطے دکھاؤ۔ “ سوہا سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اگرچہ خالہ بی نے پہلے ہی بات کر لی تھی کہ لڑکے والے چاہتے ہیں کہ لڑکے کو چند منٹ لڑکی سے بات کرنے کی اجازت دی جائے اور سوہا کے ماں باپ نے رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ لیکن اب ایسا لگ رہا تھا جیسے خالہ کو اچانک یہ بات یاد آئی اور انہوں نے بر ملا اس کا اظہار کر دیا۔

سوہا وقارکو چھت پر لے گئی جہاں ایک کونے میں وہ پنجرہ رکھا تھا جس میں طوطے تھے۔ خیر یہ تو ایک بہانہ تھا۔ اب وقار نے گفتگو کا آغاز کیا۔ چند چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد اس نے اصل سوالات کی طرف آتے ہوئے مہذب انداز میں سوال کیا۔ ”کیا آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟

”جی نہیں“ سوہا نے مختصر جواب دیا۔ ”کسی سے دوستی بھی نہیں ہوئی؟ “ وقار نے پوچھا۔ ”دوستیاں تو بہت ہوئیں۔ “ سوہا کے نتھنے پھولنے اور پچکنے لگے۔ وقار کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ ”سکول کے زمانے سے کالج تک کئی لڑکیاں میری دوست بنی ہیں۔ سوہا نے ایک وقفے کے بعد جملہ مکمل کیا تو وقار نے گہری سانس لی جیسے جان میں جان آئی ہو۔ اس کے سامنے بیس اکیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جس کے ترشے ہوئے جسم اور پر کشش چہرے نے اس کے دل کو جکڑا ہوا تھا۔

” یعنی کسی لڑکے سے دوستی نہیں ہوئی؟ “ وقار جیسے کنفرم کرنا چاہتا تھا۔ ”جی قطعاً نہیں، میری کبھی کسی لڑکے سے دوستی تو دور کی بات ہے کبھی بات تک نہیں ہوئی۔ “ سوہا کے لہجے مٹھاس کی بجائے تلخی گھلنے لگی تھی۔ آپ پہلے مرد ہیں جس کے سامنے میں آئی ہوں۔ اور آپ بار بار سوالات کرنے کی زحمت نہ کریں میں خود ہی آپ کو بتائے دیتی ہوں۔

”میں سگریٹ نہیں پیتی، شراب کو تو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ شرم و حیا کا زیور ہمہ وقت پہنے رکھتی ہوں۔ انٹر نیٹ، ٹی وی، سینما اور ڈرامے جیسی خرافات سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور ہاں مجھے ڈانس، شاعری، مصوری اور موسیقی ذرا بھی پسند نہیں۔ پڑھنے کا شوق ہے لیکن صرف نصاب کی کتابیں پڑھتی رہی ہوں۔ میں نے عمران سیریز، الف لیلہ اور قصہ چہار درویش جیسی کتابیں کبھی نہیں پڑھیں۔ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، فیض اور فراز کا تو کبھی نام بھی نہیں سنا۔ اور۔ “

وہ کہتے کہتے رک گئی۔ ”اتنا کافی ہے یا میں اپنی پاکبازی کے مزید ثبوت پیش کروں۔ “

وقار نے مزید ثبوت مانگے یا نہیں۔ اس کا تو پتہ نہیں چلا لیکن یہ ضرور پتہ چل گیا کہ پانچواں رشتہ بھی طے نہ ہوسکا۔ ہمارے ہاں ارینج میرج کے حوالے سے دو صورتیں مقبول ہیں۔ پہلی میں خاندان کے بڑے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کی شادی کس سے کرنی ہے۔ ایسی صورت میں جن دو افراد کی شادی طے ہوتی ہے بس انہی کو علم نہیں ہوتا کہ اگلے جمعے ان کی شادی ہو رہی ہے باقی سارے خاندان کو علم ہوتا ہے۔ یعنی بقول شاعر ’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ ‘

بعض لوگ تو اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے ہر فیصلے کو قبول کرتے ہیں بڑے سعادت مند بچے ہیں۔ تاہم غیر سعادت مند بچے ایسے لوگوں پر ہنستے ہیں۔ کسی انسان کے ساتھ اپنی ساری زندگی گذارنے کا فیصلہ کسی اور سے کروانا اور کہنا کہ ہاں سب اچھا ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ دو خاندانوں کی ملاقات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ ملاقات لڑکی کے گھر ہوتی ہے۔ بعض اوقات نیوٹرل وینیو یعنی کسی تیسری جگہ بھی ملاقات ہوتی ہے۔ اس ملاقات میں بناوٹ اور دکھاوا عروج پر ہوتا ہے۔ مصنوعی چاہت، نقلی باتیں اور پھر فریقین یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک دوسرے سے آشنا ہو جائیں گے۔ سچائی جان لیں گے۔

لڑکی کے لئے یہ صورتِ حال اور بھی مشکل ہوتی ہے۔ وہ تو شاید ایسا ہی محسوس کرتی ہو گی جیسے کچھ خریدار قربانی کے لئے بے عیب بکرا تلاش کرنے آئے ہیں اور مالک کی بجائے بکرے کو خود قربانی کے لئے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے۔

شادی سے پہلے کیا یہ سب کرنا ضروری ہے۔ انسان سوشل اینیمل ہے اور وہ معاشرے میں سب انسانوں سے مل کر رہتا ہے۔ ایسے میں کہیں نہ کہیں دو لوگ اگر ایک دوسرے کو پسند کرنے لگیں اور شادی کرنا چاہیں ہمارا سماج ظالم سماج کیوں بن جاتا ہے؟ اکثر ہمارے اندر ایک ’چاچا کیدو‘ چھپا ہوتا ہے جو باہر آ کر آواز لگاتا ہے کہ ”ایہہ شادی نئیں ہو سکدی“۔

شادی سے پہلے ایک ملاقات ارینج کر کے توقع کی جاتی ہے کہ دو لوگ ایک دوسرے کو جان لیں۔ یا پھرشادی کے بعد سر پرائز دینا۔ شادی کی رات لڑکی کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ماں کے بقول جس دین دار اور نیک لڑکے سے اس کی شادی ہوئی ہے۔ وہ محلے کا وہی اوباش لڑکا ہے جو کالج جاتے ہوئے روزانہ اسے چھیڑا کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).