اردو کی مخالفت چھوڑیے، اپنا طرزِ فکر بدلیے



ایک شے ہے ’نظریہ‘؛ ایک شے ہے، ’تجربہ‘۔ ایک نظریہ ہے‘ کِہ افراد کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم دینے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ اِس نظریے کو پرکھنے کے لیے‘ تجربات کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ کِہ دُنیا میں کون سی اقوام ہیں‘ جن کے حالات دیکھتے اِس نظریے کی صداقت پرکھی جائے۔ اگر ہم برطانیہ کی مثال لیں، کہ اس نے لگ بھگ ساری دُنیا میں راج کیا، اور اس کی وجہ یہ بتائیں‘ چوں کِہ وہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ اس وجہ سے ساری دُنیا میں چھا گئے نیز محکوم ان کی زبان اپنانے پر مجبور ہوئے‘ تو سوال یہ ہو گا کہ جن اقوام کو محکوم بنایا گیا‘ وہ کس زبان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے؟ اگر تو وہ اپنی مقامی بولیاں بولتے تھے‘ تو محکوم کیسے ہوئے؟ ہندُستان سے افریقہ اور امریکا تک کیا سبھی اپنی زبان چھوڑ چکے تھے؟ جب آریائی نسل نے دراوڑوں کو غلام بنایا‘ تو کیا دراوڑ اپنی زبان بھول چکے تھے؟ سکندر مقدونی، غزنوی‘ بابر و دگر نے بر صغیر فتح کیا‘ تَو کیا یہاں انگریزی پڑھائی جا رہی تھی یا اردو؟

اب اس دوسری فکر کو دیکھتے ہیں‘ ’’وہ اقوام جو ترقی کر جاتی ہیں، وہ دوسری اقوام پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ ان کی تہذیب و ثقافت اور اُن کی زبان محکوم طبقوں تک پھیلتی ہے‘‘۔ اس نظریے کے تحت تجربات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک دور تھا‘ جب سلطنت فارس دور دور تک پھیلی تھی؛ ملک فارس سپر پاور تھا۔ ایک زمانہ ایسا آیا‘ کِہ عربوں نے اپنی طر فکر بدلی‘ علم حاصل کیا‘ صنعت و حرفت میں ترقی کی‘ نت نئے آلات ایجاد کیے۔ روم و فارس کی سلطنتوں کو عروج ماضی کا مزار ہوا۔ عربوں نے یونانی و ہندی و ایرانی علوم کو عربی میں ترجمہ کیا۔ ارسطو‘ سقراط اور دیگر یونانی مشاہیر کو انھی عربوں نے آج کی دُنیا سے متعارف کروایا۔ کیا وجہ تھی کہ وہ عرب دنیا پر حکومت کرنے لگے؟ یہ کِہ انھوں نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کی؟ اگر یہی بات ہے تو اس سے پہلے عرب باج گذار کیوں تھے اور آج اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے با وجود‘ بے بہا سرمایہ رکھنے کے باوجود سپر پاور کیوں نہیں بن پاتے؟ یعنی فقط سرمایہ بھی ترقی کی ضمانت نہیں۔

اس کھلی بحث سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے‘ کِہ کسی کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی قوم سمجھتی ہے کہ اسے مادری زبان میں تعلیم دی جائے‘ وہ قوم ریاست کے سامنے یہ مطالبہ رکھتی ہے‘ کِہ اسے اس کی زبان میں تعلیم کی سہولیات مہیا کی جائیں‘ تَو یہ اس کا بنیادی حق شمار ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم کی بحث‘ ان ممالک میں زیادہ سر اٹھاتی ہے‘ جہاں کئی اقوام ایک ساتھ بسر کرتی ہیں۔ سانحہ یہ ہے کہ ترقی پذیر یا تنزلی کی شکار ریاستوں کی ترجیحات میں تعلیم اول نمبر پہ ہوتی ہی نہیں۔ یا پھر یہ کِہ ترجیح ہو بھی‘ تَو ایسی ریاستیں اتنے وسائل نہیں رکھتیں‘ کِہ عوام کو تعلیم یافتہ بنا سکیں؛ کجا ریاست میں شامل مختلف اقوام کو ان کی زبان میں الگ الگ درس گاہیں‘ یا نصاب بنا کے دے۔ ایسے میں عوام میں نسل پرستی‘ اپنی قوم کو دوسری قوم سے افضل سمجھنا جیسی بیماری کے جراثیم پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ محرومی کا شکار اقوام‘ اپنی محرومیوں کی وجہ دوسری اقوام کی ترقی کو سمجھتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے، کہ ان کا یہ ’استحصال‘ بیش تر انھی کے ہم قوم رہ نما یا حکمران کرتے ہیں۔ حرف ان پہ نہ آئے‘ اس لیے وہ دوسری اقوام اور ان کی بولیوں، ان کی تہذیب سے نفرت کا نعرہ لگا دیتے ہیں‘ تا کِہ ان کی سیاست کا بازار گرم رہے۔ جیسے ہم پاکستانی‘ مغربی اقوام کی ترقی دیکھ کر‘ انھیں اپنے خلاف سازشیں کرنے والی اقوام سمجھتے ہیں۔

یہاں یہ بحث بھی ہو جائے‘ تَو کوئی مضائقہ نہیں‘ کہ ہر قوم اپنی منشا کے مطابق جینے کا حق رکھتی ہے؛ ما سوائے اس کی منشا کسی دوسری قوم کے لیے نفرت‘ کینہ یا حسد پر مبنی نہ ہو۔ وہ اپنے جینے میں آزاد ہے‘ اسے دوسرے کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنا۔ کسی قوم کی منشا کیا ہے، یہ آزادانہ اور شفاف استصواب رائے ہی سے ثابت ہو سکتا ہے؛ ایسا نہیں کِہ ایک قوم کے ایک گروہ کی منشا کو ساری قوم کی رائے سمجھا جائے‘ یا ان پر اس رائے کو مسلط کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں مشرقی پاکستان‘ بنگلا دیش بن جاتا ہے۔ میرا فہم یہ ہے‘ کِہ کوئی قوم کسی ریاست سے الگ ہو کے اپنی الگ شناخت پر اصرار کر سکتی ہے۔ آزادی حاصل کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے‘ کِہ اسے یہ آزادی‘ آزادی کی قیمت چکانے کے بعد ہی ملتی ہے۔

پھر اسی نکتے پر آتے ہیں‘ کِہ زبانیں اپنی افادیت کی بنا پر زندہ رہتی ہیں۔ ابلاغ کی افادیت بھی انھی میں سے ایک ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک میں کئی اقوام آباد ہیں۔ یہاں کئی بولیاں اور زبانیں ہیں۔ اردو (ا سے کوئی بھی نام دے لیں کِہ نام کا جھگڑا ختم ہو؛ ہندی کہیں یا اردو)‘ اس زبان کی افادیت یہ ہے کہ اکثر اقوام اس زبان کی بہ دولت ایک دوسرے سے ابلاغ کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اردو کی وکالت کرنا مشکل یوں ہے‘ کِہ اردو (ہندی) بولنے والے بھی اپنے بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستانی سرکار اردو کی ترویج کے لیے کیا کر رہی ہے‘ اصل میں کچھ بھی نہیں‘ کِہ بس اسے پاکستان کی قومی زبان قرار دے کر بھول گئی (تا کِہ قوم پرست اردو کو بُرا بھلا کَہ کر اپنا غم ہلکا کر سکیں)۔ اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے احکامات دینے والی عدالتوں کے فیصلے ہوں‘ یا کوئی سرکاری چھٹی‘ سب انگریزی کے محتاج ہیں۔

اردو کو پاکستان کی قومی زبان نہ بھی کہا جائے‘ تَو اس کی ضرورت اپنی جگہ ہے۔ ہندُستانیوں پر اردو مسلط نہیں کی گئی‘ یہ برصغیر کی اقوام کی ابلاغی ضرورت ہے۔ صرف ایک اسکرپٹ یا رسم الخط ہے‘ جس کا مذہبی‘ سیاسی جھگڑا ہے۔ یہ زبان ابتدا ہی سے فارسی عربی اسکرپٹ میں لکھی جاتی تھی‘ اس وقت بھی جب فورٹ ولیم کالج کی بنیاد نہ پڑی تھی۔ سرکار انگلشیہ کی طرف سے انگریز افسروں کو ایک ایسی زبان سکھانے کی ضرورت تھی‘ جس زبان میں وہ برصغیر کی تمام اقوام سے ابلاغ کر سکیں‘ انھیں ہر اُس علاقے کی زبان نہ سیکھنا پڑے‘ جہاں ان افسروں کو متعین کیا جانا ہو۔ اردو واحد زبان تھی جو برصغیر کے طول و عرض میں سمجھی جاتی تھی۔ یوں اردو کی گرائمر مرتب کرنے اور زبان کی ترویج کے لیے فورٹ ولیم کالج قیام عمل میں لایا گیا (اہل زبان کو گرائمر سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ گرائمر ان کے لیے ترتیب دی جاتی ہے‘ جو دوسری زبان سیکھنا چاہتے ہوں)۔ انگریز سرکار اس زبان کے لیے کون سا اسکرپٹ منتخب کرے‘ اس کا نام اردو ہو‘ یا ہندی؟ یہاں سے زبان پر ہندو مسلم سیاست شروع ہوتی ہے۔

اردو لکھنے کے لیے عربی‘ فارسی رسم الخط جبرا نہیں‘ بل کِہ دیو ناگری اسکرپٹ زبردستی مسلط کیا گیا‘ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے‘ ہندُستان میں اس کو رائج کرنے کی تاریخ محض 1947ء کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ ہندُستانی فلموں کے شائقین مشاہدہ کر سکتے ہیں‘ کہ کب اردو فلمیں ہندی فلمیں کہلانا شروع ہوئیں‘ اور ایسے ایسے ’شدھ سنس کرتی شبد‘ مکالموں کا حصہ بنائے گئے‘ جنھیں آج کے بھارتی بھی آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔

الغرض! اقوام کو ترقی کرنے کے لیے زبانیں نہیں‘ اپنا طرزِ فکر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم و فنون اور سائنس کے میدان میں ترقی کر کے ہی اقوام ترقی کرتی آئی ہیں۔ جو اقوام ترقی کرتی ہیں، معیشت پر ان کا اجارہ ہو جاتا ہے۔ علوم و فنون میں ترقی کے بغیر‘ کسی قوم کی ترقی کا خواب، اک خواب ہی ہے‘ جس کی تعبیر نہیں ہوتی۔ گر وہ تعبیر کو پائیں تو ان کی تہذیب، ثقافت، زبان پروان چڑھتی ہے۔ بدلتے حالات کے ساتھ بدلنے والی اقوام ہوں‘ یا زبانیں‘ بقا وہی پاتی ہیں‘ جن میں لچک ہو۔ ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ ہو‘ یا سنس کرت کی طرف لوٹ جانے کی مہمل باتیں‘ یہ اس لیے ممکن نہیں‘ کِہ تاریخ آگے کی طرف سفر کرتی ہے‘ پیچھے کو نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran