ایاز میلو اور امر سندھو


زمانہ ہوا کہ امر سندھو نے شاہ حسین کے ان الفاظ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے جن الفاظ میں شاہ حسین روتی، دکھی، مصیبت زدہ لڑکیوں کا حال بیان کر رہا ہے۔ وہ لڑکیاں جو بہت دکھی بھی ہیں پر ان کو ایسا کوئی پرسان حال بھی میسر نہیں جس کو اور نہیں تو وہ اپنا حالِ دل ہی سنا سکیں۔ ان کے ساتھ رو سکیں انہیں وہ سب کچھ بتا سکیں جو ان پر بیتتی ہے۔ پر کوئی نہیں!

مائے نی میں کینہوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی

امر سندھو شاہ حسین کے ان الفاظ سے بہت آگے کا سفر کر چکی ہے۔ امر سندھو ان الفاظ کو اپنے جوتے تلے روند چکی ہے۔ اب یہ الفاظ بے معنی ہو کر امر سندھو کا منہ تک رہے ہیں جب کے امر سندھو ان الفاظ سے کہہ رہی ہے کہ

، ، ربا میرے حال دا محرم توں

اندر توُن ہِیں، باہر توُں ہِیں، روُم روُم وچِ توُں!، ،

امر سندھو رب کو اپنے دل کا حالِ محرم بنا کر وہ کام کر گئی ہے۔ جسے کرنے کو صدیاں چاہیں۔ یہ ایسا کام نہیں کہ یہاں سوچا اور وہ گیا۔ امر سندھو نے جو کر دکھایا ۔ اگر آج الہ دین کا جن بھی مل جائے تو وہ بھی توبہ کرے پر کام نہیں!

امر سندھو نے جو کام کر دکھایا وہ مشکل بھی تھا اور نہ ممکن بھی۔ اگر اتنا ہی سہل ہوتا تو امر سندھو ہی کیوں؟

ایسی کئی خواتین موجود ہیں جو سندھ میں نامور ہیں۔ پر یہ کام ناموروں کے بس کا بھی نہیں تھا۔ اگر ان کے بس کا ہوتا تو وہ اس پاگل سی لڑکی کو وہ کام کرنے ہی نہیں دیتے جو اس کے نازک ہاتھوں اور ڈھلتی عمر والے کاندھوں نے کر دکھایا۔ سندھ میں امر سندھو بھلے نامدار نہ ہو، پر وہ کامدار ضرور ہے۔

وہ بیک وقت کئی پلیٹ فارموں سے سندھ کی آواز بنی ہوئی ہے۔ وہ بات کرتی ہے۔ وہ لوگوں کو بلا کر ان سے ان کے مسائل سنتی ہے۔ وہ مختلف پروگراموں میں شریک ہوتی ہے۔ وہ پڑھاتی ہے۔ وہ یونیورسٹی میں انتظامی غنڈا گردی نہیں چلنے دیتی۔ وی سی نظیر مغل اتنی پرانی بات نہیں۔ جب سندھ کے درد بہت بڑھ جا تے ہیں تو امر سندھو ان دردوں پر لکھتی ہے۔ امر سندھو ایک ہی وقت بہت سے کاموں میں مشغول رہتی ہے۔ وہ سب ایسے کام ہیں جن سے سندھ مسکرائے!

پر ایک کام جو امر سندھو بلکل دیوانوں کی طرح چار سالوں سے لگا تار انجام دے رہی ہے۔ وہ کام واقعی ایسا ہے اگر کوئی اور کر سکتا تو وہ اس کام میں امر سندھو کو قریب بھی بھٹکنے نہیں دیتا۔

لیڈر بن جانا وہ بھی سندھ جیسی دھرتی پر بہت آسان ہے۔ آپ کو سندھ میں بہت سے لیڈر مل جائیں گے پر کارکن بننا بہت مشکل ہے۔ اس لیے کوئی کارکن نہیں بنتا۔ وہ لیڈر جو لیڈر ہیں جب ان پر کارکن بننے کی مصیبت آتی ہے تو وہ بہت چیختے ہیں چلا تے ہیں پر کارکن نہیں بنتے۔ پر امرسندھو کارکن بن کر سبھی کام کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ لیڈر ہے۔ پر وہ پیچھے رہ کر کارکنوں میں اپنا نام داخل کر رہی ہو تی ہے۔

ایسے ہی وہ کام جو امر سندھو نے کیا ہے اور جو لگاتار چار سالوں سے اس کام کو دیوانگی کی حد تک کر رہی ہے۔ وہ کام اگر کسی اور سے ہوتا تو اس وقت تک وہ کام امر سندھو سے ایسے ہائی جیک کر لیا جاتا جیسے نصیر گوپانگ سے سندھ لٹریچر فیسٹول ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔

امر سندھو کا وہ کام سندھ میں ایاز میلو منعقد کرانا ہے۔ لطیف ایسا شاعر ہے اگر لطیف کا عرس بھی نہ ہو تو پھر بھی لطیف ان خانہ بدوشوں سے نہیں بھولے گا جو سندھ، بلوچستان کے پہاڑوں، صحراؤں، ساحلوں، دریا کے کناروں پر اپنے اونٹوں کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ جو لطیف کے حافظ ہو تے ہیں۔ اگر آپ کا کبھی ان خانہ بدوشوں سے سامنا ہوجائے تو ان سے لطیف سنیں وہ آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔

پر لطیف کا عرس بھی ہوتا ہے جس سے لوگ لطیف کو جانتے ہیں۔ سرکار بھی لطیفیات کو سپورٹ کرتی ہے۔ اس لیے سندھ سے لطیف نہیں مٹ سکتا۔ لطیف کے بعد وہ ایاز ہی تھا جس نے سوال میں پوچھا تھا کہ

، ، لطیف کے بعد کس کی آیتیں یاد رہ جا ئیں گی ایاز؟!، ،

وہ ایاز ہی تھا۔ پر امر سندھو کے ایاز میلو سے پہلے ایاز یا تو ان دوستوں کی بند دلوں میں بند تھا جو دوست بھی بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ یا کبھی کبھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کوئی ایاز کو یاد کر لیتا یا ایاز ان کتابوں میں بند تھا جو ایاز نے اپنی رات کی نیندیں جلا کر لکھیں۔

امر ایاز کو لائیبریروں، پرنس کامپلیکس کے ایاز کے فلیٹ، دوستوں کے بوڑھے ہو تے دلوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں، اور ان کتابوں سے باہر لے آئی جہاں ایاز بھی اپنی زندگی میں کبھی کبھی جایا کرتے تھے۔ اور اپنی آواز میں اپنے عاشقوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ اس سے پہلے ایاز بس بہت پڑھے لکھے ایسے پڑھے لکھے جن کے لیے یہ محاورہ بن گیا تھا کہ (پڑھے لکھوں کا شاعر)

وکیل، شاعر اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہوا کرتے تھے۔ بھلے کوئی ایاز کے سامنے ایاز کے گیت بھی کوئی گاتا ہو۔ پر ایاز کے سامنے کوئی ناچتا نہیں تھا۔

اب امر سندھو کے ایاز میلو میں ایاز کے گیت گائے جا تے ہیں اور لوگ دیوانہ وار ایسے گیتوں پر ناچتے ہیں جب صنم ماروی اپنے انداز سے گاتی ہے کہ

، ، سندھڑی تے سر کیر ننے ڈیندو

سھندو کیر میار او یار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ،

امر سندھو نے اپنی صلاحیت سے ایاز کو ان لوگوں سے مخاطب کروایا ہے جو بہت ہیں۔ جو سندھ میں رہتے ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں۔ جو اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں، جو خلق ہیں۔ جو کروڑوں میں ہیں۔

امر سندھو نے شیخ ایاز کو بھی وہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں پر خانہ بدوشوں نے شاہ لطیف کو لا کر کھڑا کیا ہے۔

اب اگر ایاز ہی ہو چھے کہ

، ، لطیف کے بعد کس کی آیتیں یاد رہ جا ئیں گی ایاز؟!، ،

تو ہمیں امر سندھو کی جانب سے ایاز میلو یاد آ جائے گا اور ہم بلا جھجک کہیں گے کہ

، ، ایاز کی آیتیں!، ،

ایاز کی وہ شاعری نما آیتیں ہمیں کیوں کر یاد رہ جا ئیں گی؟

اس لیے کہ امر سندھو نے ایاز کو خاص سے نکال کر عام تک پہنچا دیا ہے۔

اب ایاز خاص کی ملکیت نہیں اب ایاز عام کی وراثت میں ہے۔ امر سندھو نے شیخ ایاز پر ویسا ہی میلا منعقد کیا ہے جیسا میلا بھٹائی اور قلندر پر ہوتا ہے۔ بھٹائی اور قلندر کا میلا تین دنوں کا ہوتا ہے اس کا سارا انتظام اور خرچہ سرکار کے ذمے ہوتا ہے جب کہ ایاز میلو پانچ دنوں تک سب کو یہ بتاتا رہا ہے کہ

، ، لطیف کے بعد کس کی آیتیں یاد رہ جائیں گی ایاز؟، ،

ایاز میلو کی تصاویر نیچے گیلری میں ملاحظہ کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).