اٹلی میں اردو شاعری کا تذکرہ


جب لوگوں نے سنا کہ میں دسمبر میں یورپ جارہی ہوں تو سب نے یک زبان کہا ’’بائولی ہوئی ہو، لوگ گرمیوں میں وہاں جاتے ہیں۔ تمہارے سر میں پھوڑا نکلا ہے۔ ‘‘ میں نے ہنس کے کہا کیا کروں اٹلی کے یونیورسٹی اساتذہ نے مل کر میری نظموں کا اطالوی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کو شائع کیا اور اس کے باقاعدہ افتتاح اور سات یونیورسٹریز میں پڑھنے اور مکالمہ کرنے کے لئے مجھے بلایا جارہا ہے۔

اس سےپچھلے برس فرانسیسی میں ترجمہ ہوا تھا۔ انہوں نے بلایا تھا مگر ٹکٹ نہیں دیا۔ اس لئے مبارکباد اور معذرت، دونوں روانہ کردی تھیں۔

روم، فلورنس اور ٹیورن کی یونیورسٹیوں کے علاوہ پاکستانی سفارت خانے کی بہت محبت سے ایک شام اور پھر پاکستانی کھانے کا اہتمام، بہت دن بعد قورمہ اور پلائو کھایا۔ بڑا مزا آیا کہ اٹلی کے ہر شہر میں یا تو پیزا ہے، پاستا ہے، اور کہیں کہیں پاٹیا (یعنی وہاں کی بریانی)۔ موسم صرف ٹیورن میں بہت ٹھنڈا تھا، روم میں اسلام آباد جتنی ہی سردی تھی۔

ہر یونیورسٹی میں اطالوی میں نظمیں، خود وہاں کی مشہور شاعرات نےپڑھنے میں خوشی محسوس کی۔ سوال و جواب کئے اور سینکڑوں طالبات اور اساتذہ نے کتابوں پر دستخط کروائے۔ کچھ اطالوی پروفیسر اور شاگردوں نے چند نظموں خاص کر ’’ہم گنہگار عورتیں، گھاس بھی مجھ جیسی ہے، دوراہا اور فلوجہ پہ نظموں‘‘ کی تفصیل بتانے کیلئے کہا۔

یہ اطالوی میں، میری کتاب بنی کیسے۔ چند سال ہوئے میں کلکتہ گئی تھی۔ وہاں ماری ماتا، روم یونیورسٹی کی پروفیسر بھی شریک تھی۔ اس نے نظموں کی کاپی مانگی، اس نے دوسری پروفیسر چیچلیا کو دکھائی اس نے oup سے نظموں کی کتاب منگوائی اور دونوں نے مل کر ترجمے کئے اور پبلشر سے رابطہ کیا۔ ان کا نام تھا فرینکو۔ وہ کچھ عرصہ انڈیا میں بھی رہ آئے تھے۔ اردو، ہندی جانتے تھے۔ نظمیں پڑھ کر فوراً اشاعت کی ذمہ داری قبول کی۔ یوں یہ کتاب شائع ہوئی۔

ٹیورن میں شعبہ جنوبی ایشیا، ٹیورن یونیورسٹی نے، مجھے بلایا تھا، یہ پوچھنے کو کہ وہ کون سے حالات تھے، جن میں، میں نےیمون ڈی یورا کی تصنیف ’’سیکنڈ سیکس‘‘ کا ترجمہ کیا وہ کتاب بین کیوں ہوئی اور میں کیا اس زمانے میں یمون سے رابطے میں تھی۔ اب میں نے ضیاء الحق کے زمانے میں سنسرشپ کی تفصیلات اکرام اللہ کے ناولٹ اور فخر زماں کی کتاب پر بھی پابندیوں کا ذکر کیا۔ پھر خاص طور پر ضیاء الحق کی خواتین پر بالخصوص مہربانیوں اور تعزیرات کا ذکر کیا۔

سوالوں میں پوچھا گیا کہ کتاب کی تلخیص کیسے کی اور اس پر فحاشی کا مقدمہ کیوں چلا۔ چونکہ آج بھی نصاب میں لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی تعلیم اس حد تک نہ ہونے کے برابر ہے کہ جہاں سائنس میں پودوں کے اختلا ط کی بات لکھی ہوئی ہو تو عموماً خواتین اساتذہ، وہ باب ہی چھوڑ دیتی ہیں اور پڑھاتے ہوئے شرماتی ہیں۔

یمون سے ذاتی تعلق کی تفصیلات بھی پوچھی گئیں۔ صرف ایک چیز کا دکھ ہے وہ یہ تھا کہ میں نے مشاہیر کے خطوط سنبھال کر نہیں رکھے، ورنہ آج عطیہ فیض، راشد صاحب، فیض صاحب، شاہد احمد دہلوی، احمد فراز، ہاجرہ اور خدیجہ آپا کے علاوہ قاسمی صاحب تک کے خط آئے اور میری نالائقی کہ نہ اپنا آپ سنبھالا، نہ خطوط بلکہ میری ہر کتاب بھی دوستوں کے تعاون سے مرتب ہوپاتی ہے کہ میں نے نہ کبھی نقل رکھی اور نہ کبھی نظم یا غزل، لکھنے کے بعد سنبھالی نہیں، بس دراز میں ڈال دی۔

بہرحال واپس چلیں اٹلی، وہاں ہریونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی ادب و تہذیب کا شعبہ قائم ہے۔ ماری ماتا نے تو چینی، تبتی اور بنگلا زبانوں پر ڈاکٹریٹ کئے ہیں۔ چیچیلا نے ہندی اور سنسکرت میں اصطلاحات پر ڈاکٹریٹ کی۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ ہندوستان اور بنگلا دیش کے لئے تو یونیورسٹی کمیشن اور وزارت ثقافت فنڈز دے دیتے ہیں مگر پاکستان سے تو اتنا احتراز کہ جنوبی ایشیا کی زبانوں کے سلسلے میں سے اردو کو بالکل خارج کردیا گیا۔

اس میں حکومت اور سفارت کاروں کی بے توجہی بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جنسی جرائم کے واقعات کی تشہیر اتنی ہے کہ حکومتیں خواتین اساتذہ کو پاکستان بھیجنے سے گریز کرتی ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہےکہ نئی حکومت کو آئے سو دن سے اوپر ہوگئے ہیں مگر کسی ملک سے ثقافتی تعلقات کے معاہدے نہیں ہوئے۔

اب پولینڈ میں ایک خاتون میری کتاب ’’بری عورت کی کتھا‘‘ کا ترجمہ کررہی ہے۔ نہ مجھے معلوم تھا اور نہ ہماری حکومت کو۔ دراصل یہ ساری تراجم کی تحریکیں، مختلف ممالک مع چین کے خود کروالیتے ہیں۔

ہمارے ممالک کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اب تو چین کا وفد بھی پاکستان نہیں آیا۔ اکیڈمی اور سارے ادارے بغیر کسی سربراہ کے جوائنٹ سیکرٹریوں کو الائونس دیکر، افسر اور محکمہ دونوں خوش ہیں۔ اٹلی میں اگر میری شاعری کے تراجم ہورہے ہیں تو سرکار کو کیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).