’میں ہوں رضاکار‘: نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے سرگرم عمل نوجوان


اگر کوئی آپ کو یہ کہے کہ پشاور میں کچھ ایسے نوجوان اور اساتذہ بھی موجود ہیں جو نشہ کرنے والے عادی افراد کی بحالی کے لیے خود اپنا جیب خرچ کاٹ کر یہ کام کررہے ہیں تو شاید آپ کو یقین نہ آئے؟

لیکن یہ حقیقت ہے اور جس تنظیم کے بینر کے نیچے یہ نوجوان کام کررہے ہیں وہ رجسٹرڈ ہے نہ کسی سے امداد لیتی ہے۔

’آئی ایم ولنٹیئر‘ یا ’میں ہوں رضاکار‘ کے نام سے موسوم یہ تنظیم زیادہ تر یونیورسٹی طلبہ اور اساتذہ پر مشتمل ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کینابس‘: پاکستان میں ’بچوں‘ کا نشہ؟

اسلام آباد میں کتنے فیصد طالبات نشہ کرتی ہیں؟

چرسی چوہے 540 کلو گرام منشیات ہڑپ کر گئے

سنہ 2007 میں قائم ہونے والی یہ تنظیم جس طرح اپنی مدد اپ کے تحت بغیر کسی لالچ کے کام کرتی ہے اس طرح ان کے کام کرنے کا طریقہ بھی مختلف ہے۔

تنظیم کے رضاکار پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں اور انھیں جب بھی کسی جگہ سے کسی نشہ کرنے والی خاتون کے بارے میں معلومات ملتی ہیں تو یہ فوراً ان کو ایک ’ہدف‘ کے طور پر لیتے ہیں اور پھر تنظیم کی خواتین رضاکاروں کے ذریعے سے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔

عائشہ بی بی نامی منشیات کی عادی یہ خاتون گذشتہ 18 سالوں سے پل کے نیچے زندگی گزار رہی تھیں

عائشہ بی بی نامی منشیات کی عادی یہ خاتون گذشتہ 18 سالوں سے پل کے نیچے زندگی گزار رہی تھیں

یہ رضاکار بعض اوقات منشیات استعمال کرنے والی خواتین کو نشہ بھی فراہم کرتی ہیں تاکہ ان کا اعتماد حاصل کیا جاسکے اور جب وہ ان کے ساتھ جانے پر راضی ہوجاتی ہیں تب انھیں کسی رضاکار کے گھر میں لے جایا جاتا ہے جہاں انھیں نہلا دہلا کر اور ان کو نئے کپڑے پہنا کر علاج کے لیے کسی بحالی کے مرکز منتقل کردیا جاتا ہے۔

’آئی ایم ولنٹیئر‘ کے رضاکاروں نے حال ہی میں پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں واقع ایک پل کے نیچے سے کئی سالوں تک ہیروئن کا نشہ کرنے والی ایک خاتون کو بچایا ہے۔ عائشہ بی بی نامی منشیات کی عادی یہ خاتون گذشتہ 18 سالوں سے پل کے نیچے زندگی گزار رہی تھیں جہاں دیگر عادی افراد بھی ان کے ساتھ رہ رہے تھے۔

عائشہ بی بی سے ملاقاتیں کرنے والی تنظیم کی ایک رضاکار طالبہ آمنہ ناصر نے کہا کہ عائشہ بی بی کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ عائشہ بی بی کا تعلق صوابی کی ایک کھاتے پیتے سے گھرانے سے ہے اور میٹرک کے بعد ان کے والدین نے انھیں اعلی تعلیم کے لیے لاہور بھیجا جہاں وہ ہاسٹل میں نشوں کی لت میں مبتلا ہو گئیں۔

منشیات

یہ رضاکار منشیات استعمال کرنے والے خواتین اور مردوں کی بحالی کے علاوہ دیگر فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں

انھوں نے کہا کہ عائشہ بی بی کو علاج کے لیے راضی کرنے کے لیے وہ کئی بار ان سے ملاقاتیں کرچکی ہیں اور اس دوران انھیں وہاں موجود دیگر عادی افراد کی طرف سے مشکلات کا سامنا بھی رہا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عائشہ بی بی ان کو چھوڑ کر کہیں اور چلی جائیں۔

آمنہ ناصر کے مطابق کارخانو مارکیٹ میں نشہ کرنے والے ایک اور خاتون سے بھی بات ہوئی تھی لیکن اس نے آخری وقت میں جانے سے انکار کردیا تاہم ان کی کوشش ہے کہ اگلے ہفتے ان سے بھی بات کرکے کسی بحالی کے مرکز میں داخل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

’حکومت بھنگ کے کاروبار کی اجازت دے‘

منشیات فروش پولیس گاڑی کو ٹیکسی سمجھ بیٹھا

انگلیوں کے نشانات سے منشیات کے استعمال کی نشاندہی

’آئی ایم ولنٹیئر‘ کے ساتھ تقریباً دو سو کے قریب رضاکار منسلک ہیں جن میں اکثریت یونیورسٹی طلبہ اور اساتذہ کی ہے۔ ان کے رضاکار منشیات استعمال کرنے والے خواتین اور مردوں کی بحالی کے علاوہ رمضان کے مہینے میں مفت افطاری کا انتظام کرنا، مریضوں کو خون عطیہ کرنا، ضرورت مند خاندانوں کی کفالت کرنا ، مختلف تہوار پر بچوں کو تحفہ دینا اور پشاور کی صفائی مہم میں حصہ لینا جیسے سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

تنظیم کے سربراہ اور تدریس کے شعبے سے منسلک شہزاد حنیف کا کہنا ہے کہ اب تک تنظیم کی طرف سے نشہ کرنے والے 45 افراد کو بحالی کے مراکز میں منتقل کیا جاچکا ہے اور جن میں بیشتر علاج کے بعد اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں۔

رضا کار

اس تنظیم میں طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ پیشہ ور افراد بھی شامل ہیں

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پشاور میں منشیات استعمال کرنے والی خواتین کی بحالی کا کوئی مرکز موجود نہیں اسی وجہ سے ان کی کوشش ہے کہ ایسی خواتین پر توجہ مرکوز کی جائے جو نشہ چھوڑنا چاہتی ہوں اورجن کو بہتر سے بہتر علاج کی سہولیات فراہم کی جاسکے۔

انھوں نے کہا کہ عائشہ بی بی کو اسلام آباد کے علاقے بنی گالا میں واقع ایک بحالی کے مرکز منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

’ہم نے کبھی کسی فلاحی یا امدادی ادارے سے کوئی مدد نہیں لی بلکہ ہم اپنے دل کی تسکین اور اپنے ہی لوگوں کی مدد کرنے کےلیے اپنے ہی جیب سے کمیوٹی سروسز کررہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم میں طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ پیشہ ور افراد بھی شامل ہیں جو ضرورت کے وقت تنظیم کی مالی معاونت کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp