مراکش میں ہر سومرحبا مرحبا


دنیا کتنی خوبصورت اور دلچسپ ہے اس کا انداز ہ تب ہوتا ہے جب انسان مختلف ممالک کا دورہ کرتا ہے۔ میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں سیر کرنے کا ایک جنون ہوتا ہے۔ جس کی ایک وجہ مالی حالت کی بہتری ہوتی ہے اور تجارت بھی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ انسان ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتا رہتا ہے۔ میں نے بھی دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا ہے اور مجھے اس بات کو اقرار کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ پچھلے تین برسوں میں ہم نے ان ممالک کی ثقافت، مزیدار پکوان، لوگ اور آب و ہوا سے خوب لطف اندوز ہوئے ہیں اور ہماری معلومات میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے۔

مراکش جانے کا ارادہ تو کافی عرصے سے تھا لیکن اس سال ہی جائیں گے اس کا طے تب ہواجب میری بیٹی زارا فہیم نے کرسمس کی چھٹیوں میں مراکش چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ 18 ؍ دسمبر کی صبح اپنی بیگم ہما سید اور زارا فہیم کے ہمراہ گیارہ بجے ہم لندن کا دوسرے معروف ائیر پورٹ (Gatwick) گیٹ وِک کی طرف روانہ ہوگئے۔ لگ بھگ پینتالیس منٹ کے بعد ہم ائیر پورٹ کے لمبی مدت والے پارکنگ پہنچ گئے۔ گاڑی کی چابی کاؤنٹر پر دے کر پارکنگ کمپنی کی بس پر سوار ہو کر گیٹ وِک کے نارٹھ ٹرمنل کی جانب چل ئیے۔ مراکش پہنچنے کی چاہت سے دل میں فرحت محسوس ہونے لگا۔ تھوڑی دیر میں چیک ان ہوجانے کے بعد (Easy Jet) ایزی جیٹ جہاز پر سوار ہو گئے۔ پائلٹ نے ہمارا استقبال کیا اور ساڑھے تین گھنٹے میں مراکش پہنچانے کا یقین دلایا اور جہاز اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔

مقامی وقت کے مطابق ہمارا جہاز رات کے پونے نو بجے مراکش شہر کے مینارا ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ مراکش کے مینارا ائیر پورٹ پر عربی زبان میں ’مرحبا مرحبا‘ لکھا ہوا پایا جس سے اس بات کا احساس ہوا کہ مراکش میں عربی زبان عام ہے۔ تاہم مراکش لوگ فرنسیسی زبان بھی خوب بولتے ہیں۔ لندن کی سردی کے بر عکس مراکش شہر کی گرمی کا احساس ناگوار نہیں گزر رہا تھا۔ لیکن تھوڑی تھوڑی سردی کا بھی احساس ہو رہا تھا۔

ہم نے برٹش پاسپورٹ کی وجہ سے سیکورٹی چیک جلدی کروا لیا کیونکہ ہمیں ویزا کی ضرورت نہیں تھی۔ باہر نکلتے ہی سامنے ٹیکسی اسٹینڈ پر پہنچے اور انگریزی زبان میں ٹیکسی والے سے بات کرنے کی کوشش کی تبھی یاد آیا زارا فہیم کو فرانسیسی زبان آتی ہے۔ پھر ہم نے زارا کی مدد سے ٹیکسی والے سے ہوٹل چلنے کی بات کی اور کرایہ کی رضامندی کے بعد ہم سب ہوٹل نکل پڑے۔ ٹیکسی اندر اور باہر سے کافی صاف ستھری اور اچھی حالت میں تھی۔

ائیر پورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے راستے کا نام محمد ششم تھا جو کہ مراکش کے بادشاہ کے نام پر ہے۔ سڑکیں نہایت خوبصورت اور روشنی سے پر نورتھیں۔ سڑک کے دونوں کنارے درختوں سے سجے ہوئے تھے۔ کھجور کے درختوں سے اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ مراکش میں عرب ماحول کا بے حد اثر ہے۔ اس کے علاوہ نارنگی کے درخت بھی سڑک کے دونوں کنارے کافی دکھائی دیے۔ تاہم ان نارنگیوں کو آلودگی کی وجہ سے لوگ کھانے سے گریز کرتے ہیں۔

سڑک کے بیچ میں روشنی کے ذریعہ مراکش قومی جھنڈے کی نمائش کی گئی تھی۔ جس سے ملک میں قومیت کا جذبہ صاف دِکھ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر مجھے اس بات کا احساس ہوگیا کہ آخر یورپ کے لوگ کیوں مراکش جانا پسند کرتے ہیں۔ ابھی ہم ٹیکسی میں بیٹھے باہر کا نظارہ کر ہی رہے تھے کہ ٹیکسی والے نے ہوٹل پہنچنے کا اعلان کر دیا۔ ہم نے ڈیڑھ سو مراکشی درہم ادا کیے اور ہوٹل میں داخل ہو گئے۔

19 ؍ دسمبر کی صبح جب آنکھ کھلی تو باہر کافی اندھیرا تھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو آٹھ بج رہے تھے۔ ہوٹل کی بالکونی سے باہر جھانکا تو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا البتہ پرندوں کی چہچہاہٹ ضرور سنائی دی۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ دسمبر میں مراکش کی صبح کافی دیر میں شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر مزید آرام کرنے کے بعد ہم نہا دھو کر تیار ہوئے اور ہوٹل سے باہر نکل پڑے۔ باہر دھوپ اپنی بانہیں پھیلائے ہمیں ’مرحبا مرحبا‘ کہہ رہی تھی۔ ابھی ہم کچھ ہی قدم بڑھے ہوں گے کہ ایک خاتون نے ہمیں آواز دی اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں ٹور گائڈ کی ضرورت ہے تو لیلی خدیجہ نام کی یہ خاتون خدمت میں حاضر ہے۔ ٹور گائڈ نے ہمیں آدھے دن مدینہ علاقے میں گھمانے کی خدمت کا تین سو درہم مانگا اور ہم رضامند بھی ہوگئے۔

مدینہ علاقہ مراکش شہر کا قدیم علاقہ ہے جہاں ہزاروں دکانیں ہیں۔ ادویات، کھجور، شربت، کپڑے، چمڑے کے بیگ کے علاوہ پودینہ اور ٓرگان کے تیل کی دکانیں بہتات میں تھیں۔ گائڈ خدیجہ نے بتایا کہ آرگان کاتیل بالوں اور جلد کے لئے بے حد مفید ہے۔ آرگان تیل جلد اور بالوں کی خشکی دور کر کے ان کو خوبصورت اور پر رونق بناتا ہے۔ اس کے علاوہ اس تیل کی مالش سے درد میں بھی کمی ہوتی ہے۔ کئی دکانوں میں عورتیں آرگان کا تیل نکالتے ہوئی دکھائی دیں جسے سیاح کافی دلچسپی سے دیکھتے او ر تیل خریدرہے تھے۔

ہم نے مراکشی لباس خریدے اور کچھ تیل بھی لیا۔ تاہم ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہوا کہ تھرڈ ورلڈ کے لوگوں میں ایمانداری کا فقدان ہے۔ مثلاًمراکش میں اگر کسی سامان کی قیمت پانچ درہم ہے تو تاجر اس کی قیمت سیدھے پچاس درہم بتاتا ہے۔ اس کے بعد بحث کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے اور خریدار کا اعتبار تاجروں سے اُٹھ جاتا ہے۔ ہم نے اس بات کو ہر جگہ اور قدم پر محسوس کیا جو کہ مجھے ایک افسوس ناک بات لگی۔

ابھی ہم بازار گھوم ہی رہے تھے کہ میری نظر اچانک ایک دکان پر پڑی جو بکرے کا سر سجا کر بیٹھا تھا۔ میں نے ٹور گائڈ خدیجہ سے درخواست کی کے مجھے اس دکان میں لے چلے۔ دکان کے سامنے ایک آدمی بکرے کے سر کو سجا کر بیٹھا خریداروں کا انتظار کر رہا تھا۔ خدیجہ نے ہمیں بتایا کہ اسے مراکش میں ’رس‘ کہتے ہیں۔ خدیجہ نے اس شخص سے مراکشی زبان میں گفتگو کی اور پھر مجھے تندور میں جھانک کر دیکھنے کو کہا۔ تندور کے اندر کئی بکروں کے سر پکائے جا رہے تھے۔

میں ہما اور زارا کے ہمراہ ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بے صبری سے بکرے کے سر کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے سامنے بکرے کا سر دوحصّوں میں کانٹ کر رکھ دیا گیا۔ ساتھ ہی مراکشی مصالحہ بھی دیا گیا جسے آپ اپنی مرضی سے اس کے اوپر چھڑک کر کھاتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو بکرے کا سر تھا بہت لذیز لیکن ایک بات کا خوف ہمیں ستا رہا تھا کہ بکرے کا سر اس قدر تندور میں پکایا گیا تھا کہ کان اور آنکھ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا تھا جس سے ہم کھاتے کھاتے احتیاط پر مجبور ہوگئے۔ لیکن پھر بھی ہم سب نے بکرے کے سر کو خوب مزے لے لے کر کھایا۔

مراکش شہر دو حصّوں میں بنا ہوا ہے۔ ایک حصّہ پرانا شہر جو اونچی دیواروں کے پیچھے ہے جبکہ دوسرا حصّہ نیا شہر جو جدید آرائشوں سے سجا ہوا ہے۔ نئے شہر کی سڑکیں صاف و شفاف اور فٹ پاتھ پر گندگی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ معلوم پڑتا ہے شہر کی صفائی ہر گھنٹے ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ تر لوگ جدید لباس میں ملبوس دِکھتے ہیں۔ اہم شاہراہ پرعمارتیں چار منزلہ ہیں جبکہ شہر کے اندرونی حصّے میں بنگلہ بنے ہوئے ہیں۔ تاہم پرانے شہر میں داخل ہوتے ہی پورا ماحول بدل جاتا ہے۔ لوگ، لباس، رہن سہن، بازار راستے وغیرہ سب کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپ ہندوستانی فلم لیلی مجنوں کے سیٹ پر جا پہنچے ہوں۔

کہیں تانگے کی سواری ہے تو کہیں گدھاگاڑی بھاگتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ جگہ جگہ راستے پر لوگوں کو کھاتے ہوئے دیکھنا ایک عام بات ہے اور کئی جگہوں پر طرح طرح کے مداری اپنا کھیل دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گویا کے پورا ماحول کافی دلچسپ اور لطف انگیز ہوتا ہے۔ کچھ خریداری وغیرہ کرنے کے بعد ہم پر تھکان طاری ہونے لگی۔ ہماری ٹور گائڈ خدیجہ نے شام کے ڈھلتے ڈھلتے ہمیں اپنی گاڑی پر ہوٹل چھوڑ دیا۔ ہوٹل پہنچتے ہی ہم نڈھال ہو کر سیدھے بستر پر لیٹ گئے اور مراکش کو مزید دیکھنے کی خواہش لئے سو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).