نیل پرکاش یا ابو خالد الکمبوڈی کون ہیں اور ان سے کیوں آسٹریلیا کی شہریت چھین لی گئی


آسٹریلیا کے سب سے زیادہ مطلوب جہادی نیل پرکاش کو آسٹریلیا کی حکومت نے اپنی شہریت محروم کر دیا ہے۔

اس کا اعلان کرتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پرکاش ’بہت ہی خطرناک شخص ہے۔‘

انٹیلیجنس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ میلبورن میں پیدا ہونے والے پرکاش دولتِ اسلامیہ کے لیے لوگوں کو بھرتی اور آسٹریلیا میں شدت پسند حملوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیئے

آسٹریلیوی شدت پسند پرکاش ’اب بھی زندہ ہے‘

آسٹریلیا: بنا فردِ جرم 14 دن تک حراست میں رکھنے کا منصوبہ

گرفتار نوجوان ’دہشت گردی‘ کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے

آج کل وہ ترکی کی ایک جیل میں ہیں جہاں ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چل رہا ہے۔

جولائی میں ترک عدالت نے انھیں آسٹریلیا بدر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سنہ 2017 میں ایک ترک عدالت میں پرکاش نے تسلیم کیا تھا کہ ان کا ’آسٹریلیا میں دہشت گردی کے منصوبوں سے تھوڑا بہت تعلق ہے لیکن وہ 100 ذمہ دار نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ نے انھیں پروپیگنڈا ویڈیوز بنانے پر مجبور کیا تھا اور وہ ’گروہ کا اصلی چہرہ دیکھنے کے بعد وہاں سے بھاگ گئے تھے۔‘

23 سالہ پرکاش 2013 میں آسٹریلیا سے شام چلے گئے تھے جہاں انھیں ابو خالد الکمبوڈی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ موصل پر ایک امریکی فضائی حملے میں مارے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

برطانیہ: ’دہشت گردی سے تعلق، 109 افراد پر فرد جرم عائد‘

آسٹریلیا کا طیارہ تباہ کرنے کا منصوبہ ناکام بنانے کا دعویٰ

دولتِ اسلامیہ کی پروپیگنڈہ ’وار‘

بعد میں آسٹریلوی براڈکاسٹنگ کارپویشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پرکاش نے کئی ہفتے قبل خود کو ترک حکام کے حوالے کر دیا تھا۔

پرکاش عرف ابو خالد الکمبوڈی کا نام آسٹریلیا میں حملوں کی منصوبہ بندی میں لیا جاتا ہے جبکہ وہ متعدد پروپیگنڈا ویڈیوز اور جریدوں میں سامنے آ چکے ہیں۔

پرکاش اپنے والد کی وجہ سے فجی اور آسٹریلیا دونوں کی شہریت رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا کے قانون کے مطابق دوہری شہریت رکھنا والا کوئی شخص اگر دہشت گردی کا مجرم قرار پائے یا اس پر شک بھی ہو تو اس کی شہریت ختم کی جا سکتی ہے۔

پرکاش 12 ویں آسٹریلوی شہری ہوں گے جن کو شہریت سے محروم کیا گیا ہو۔

نیل پرکاش جہادی کیسے بنے

دولتِ اسلامیہ

سنہ 2012 میں نیل پرکاش کے ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ ’کیا وہ مذہبی ہیں‘ تو ان کا جواب تھا کہ ’میں بدھ مت کا پیروکار ہوں لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک خدا ہے۔‘

ان کے دوست نے کہا کہ ’پھر تو تم بدھ مت نہیں ہوئے، تم تو کنفیوزڈ ہو۔‘

یہ سادہ سی گفتگو نیل پرکاش کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی جس کے بعد اپنے آپ کی تلاش میں نیل پرکاش میلبورن سے دولتِ اسلامیہ کے گڑھ چلے گئے جہاں ایک بدھ مت اور مستقبل میں ریپ گلوکار بننے کا شیدائی ابو خالد الکمبوڈی بن گیا۔

نیل پرکاش کے والد کا تعلق فجی سے تھا جبکہ ان کی والدہ کمبوڈیائی نژاد تھیں۔ نیل نے کمبوڈیا کا پہلا سفر 2012 میں 20 سال کی عمر میں کیا تھا۔ مذہب کے متعلق پہلے ہی الجھے ہوئے نوجوان کے لیے وہ ایک پریشان کن سفر تھا اور اس نے مذہب کے بارے میں ان کی بے یقینی میں اور بھی اضافہ کیا۔ انھوں نے بعد میں دولتِ اسلامیہ کی ایک پروپیگنڈا ویڈیو میں کہا کہ انھوں نے ’بدھ مت کے متعلق جو کمبوڈیا میں دیکھا اس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔‘

نیل پرکاش آسٹریلیا واپس آئے اور اسلام قبول کرنے کا سوچا، لیکن وہ تو مذہب کے متعلق اب بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے مسلمان دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا اور اسلام کے متعلق جاننا شروع کر دیا۔ بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس دوران ان کی ملاقات مبینہ شدت پسند ہارون مہیچیوچ سے ہوئی جو بوسنیا سے میلبورن منتقل ہو چکے تھے۔

بعد میں پرکاش نے اپنی تمام چیزیں بیچیں اور ہجرت کا فیصلہ کیا۔ 2013 میں وہ ملائشیا سے ہوتے ہوئے شام میں دولتِ اسلامیہ کے خود ساختہ دارالحکومت رقا پہنچے۔

نیل پرکاش کا تعلق آسٹریلیا میں ہونے والے کئی دہشت گردی کے منصوبوں سے جوڑا جاتا ہے جن میں 18 سالہ نعمان حیدر کا دو پولیس والوں پر چاقو سے حملہ اور آسٹریلوی جنگ کے یادگار دن ’اینزک ڈے‘ پر پولیس پر حملے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp