کیا حقوقِ نسواں کی بات کرنا لبرل مردوں کی سازش ہے؟


ہم سب میں ایک مضمون دیکھا جس کا عنوان تھا “عورت کے خلاف لبرلز کی سازش”۔ مصنف نے معاشرے میں موجود عامیانہ سوچ اور پدرپرستی کو الفاظ میں ڈھال کر لبرلز کا تیا پانچا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو یہ سوچ نئی ہے نہ ہی لبرلز پر الزام تراشی نئی ہے۔ یہ الفاظ موصوف اور معاشرے کی گھٹن کا عکاس تو تھے لیکن ان میں عیاں خواتین کے حقوق اور جنسیات سے لاعلمی بھرا استدلال کسی طور بھی منطقی نظر نہیں آتا۔

اس مضمون کا جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ ان جہالت کے استعاروں کا علمی سطح پر قلع قمع کیا جا سکے جو نہ صرف خواتین کے حقوق کی تحریکوں کو مجروح کرتے ہیں بلکہ نوجوانوں میں موجود زن بیزاری اور غیر صحت مند رویوں کو بھی فروغ دیتے ہیں۔

شروع میں یہ کہنا ضروری ہوگا کہ پدرپرستی کے محافظ صرف مرد نہیں، عورتیں بھی ہوتی ہیں جو ساس، ماؤں، دادیوں اور پھوپھیوں کے روپ میں مردوں کی شہوت پرستی کی محافظ اور عورتوں کے حقوق کی دشمن ہوتی ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق کے لیے عورتوں کے ساتھ مرد بھی شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا یہ مفروضہ کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنا لبرل مردوں کی شہوت پرستی کو راستہ دینے کا ہتھکنڈا ہے، انتہائی غلط مفروضہ ہے۔ دوسرا مفروضہ کہ عورت خود اپنا اچھا برا نہیں سمجھ سکتی، اس کو انسانی منصب سے نیچے گرانے کے مترادف ہے۔

محترم ذیشان حسین فرماتے ہیں کہ انہوں نے آج تک کسی عورت شاعر یا سائنسدان کا نام نہیں سنا۔ حضور اس کی ایک وجہ پدر پرستی اور یہی سوچ ہے جس کی آپ ترویج کر رہے ہیں۔ اسی سوچ نےعورت کو چار دیواری میں مقید رکھا۔ ایک طرف آپ عورت کی جنسیات پر چیک رکھنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف توقع کرتے ہیں کہ عورت رومانوی اشعار لکھے؟ اس سوچ کے باوجود دنیا میں 1600 سال قبل ہیپاشیا جیسی فلسفی بھی گزری ہیں، قلوپطرہ جیسی حکمران، رابعہ بصری جیسی صوفی، مادام کیوری جیسی سائنسدان اور ایمیلی برونٹے جیسی مصنفائیں بھی۔ یہی پدرپرستانہ سوچ اور سسٹم ان کے آڑے آنے کی کوشش کرتا رہا جو عورت کی برابری سے خوفزدہ تھا۔ آج اگر عورت کو کئی معاشروں میں کافی حد تک برابری مل چکی ہے تو یہی سسٹم حواس باختہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔

موصوف کی ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ مغرب میں عورت کو مکمل آزادی حاصل ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ کافی ملکوں میں حالات نسبتاً بہتر ہے لیکن وہاں بھی آج بھی عورتیں اپنے سیاسی اور معاشرتی حقوق کے لیے کمربستہ ہیں۔ جس کا ثبوت می ٹو اور برابر اجرت کی تحریکیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ خواتین کے لیے محفوظ ترین ممالک میں مغرب کے ساتھ مشرقی ممالک جیسے چین، جاپان اور تائیوان ہیں۔

مزید براں موصوف کے خیال میں عورت کے ساتھ ساتھ مرد کے حقوق کی بھی بات کرنی چاہیے۔ یہ ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے جس کو مضحکہ خیز اور بھونڈے طریقے سے مردوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی تحریک کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا ایسے ہے کہ کوئی کہے کہ بچیوں کی تعلیم کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ عورتوں کے حقوق میں یہ بات ہو چکی ہے یا حکومت کو اپنے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ بچوں کے تحفظ میں جنس کی بات نہیں ہوتی لہٰذا وہاں بات ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پسے ہوئے طبقات، مزدوروں، اساتذہ، قیدیوں، سپاہیوں، اور کسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے مردوں کے حقوق کا احاطہ ہو جاتا ہے۔

عورت کے حقوق کی بات ایک طبقے کے حقوق کی بات ہے۔ اگر آپ جنس کی بنیاد پر بات کرتے ہیں تو بتائیے کن اعداد و شمار یا کس دنیا میں عورت جنس کی بنیاد پر مرد کے بنیادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے؟ کیا حقائق کچھ اور نہیں ہیں؟ اگر کسی کی بیگم اس پر ظلم کر رہی ہے تو یہ میرا نہیں خیال کہ اکثریتی مسئلہ ہے یا قانونی طور پر اس کا تدارک نہیں۔ یاد رہے مرد کے پاس قانونی اختیار عورت سے کئی گنا زائد ہے۔ اگر کسی دفتر میں عورت کو عورت ہونے کے باعث نوکری دینے میں فوقیت دی جا رہی ہے تو یہ مردوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پدرپرستانہ معاشرے کا قصور ہے جہاں مرد عورت کو قابلیت نہیں جنس کی بنیاد پر ایک مرد پر ترجیح دے رہا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پدرپرستانہ نظام صرف عورت نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

گھِسے پِٹے دلائل کا یہ مجموعہ جہالت کا شاہکار کہلایا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ موصوف کو یہ بھی نہیں معلوم ہے  کہ دنیا میں آزادی نسواں کی تحریکیں خود عورتوں نے چلائیں۔ پہلی لہر اور دوسری لہر کی بانی عورتیں خود تھیں۔ پھر جب بڑے بڑے دانشور تحریکوں میں شامل ہوئے یا سپورٹ کیا توعوامی حمایت بڑھی، عقل و خرد رکھنے والے مردوں نے بھی سمجھ لیا کہ کسی انسان کو بھیڑ بکری سمجھنا غلط ہے۔ لہٰذا مصنف کا مفروضہ کہ عورت کو ووٹ کا حق، کمانے کا حق، جنسی بھیڑیوں سے بچاؤ کا حق یا ڈرائیونگ کا حق دینے کا مطلب ہے کہ اس کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ موصوف یہ بتائیں کہ عورت کو گھر میں قید رکھنا اور اس کے جسم کے نازک حصوں کو کاٹنا (فیمیل جینیٹل میوٹیشن) صرف اس کی جنسیات کو قابو کرنا ہے یا ایک انسان پر ظلم بھی ہے؟

ایک لبرل اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے عورت کی برابری کی آواز اٹھاتا ہے جب کہ مصنف جیسے لوگ جو عورت کو انسان نہیں سمجھتے ان کو صرف جنسی پہلو نظر آتا ہے اور وہ اسی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ لبرل عورت کو جنسی تسکین کی آزادی کے لیے برابری دینا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ عورت کو ایک جنسی کھلونے کی حیثیت تک محدود کر کے رکھتے ہیں۔ اگر آپ عورت کی تعلیم کی بات کریں گے تب بھی یہ استدلال کریں گے کہ آپ اس کو سیکس کے لیے آزادی دے رہے ہیں؟

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ترجمان درجنوں تنظیموں میں کام کرنے والی اکثریت خواتین کی ہے۔ ان خواتین کو یہ لوگ گشتیاں، کھسرے اور موم بتی والی آنٹیاں کہہ کر تضحیک کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور چپ بھی کرواتے ہیں۔ یہ خواتین ان جنس زدہ لوگوں کی جنسی پیش قدمیوں کی حوصلہ شکنی کی گواہ بھی ہوتی ہیں کیونکہ یہ ذہنیت سمجھتی ہے کہ جو عورت گھر سے نکلی اس کو صرف سیکس چاہیے اور وہ ایک دستیاب اور بدکردار عورت ہے۔ جب ان کا مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے تو ان عورتوں کو انتقامی طور پر بدنام کرتے ہیں۔ جو مرد عورت کے حقوق کی بات کرے اس کو بھی اسی مفروضے کے تحت سیکس کا متلاشی سمجھتے ہیں اور لبرلزم بھی انہیں یہی لگتا ہے۔

موصوف نے چھوٹی بچیوں کے ریپ اور قتل کو بھی لبرلزم کا نتیجہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ نہیں سوچا کہ آج دن تک اس بھیانک کام کے معاشرتی گھٹن ذدہ ذمہ دار رجعت پسند لوگ ہی نکلےہیں نہ کہ لبرل۔

جہاں تک رہی بات ہم جنس پرستی کی تو یہ اپنی بات سے خود ہی اختلاف کر رہے ہیں۔ مغرب میں تو عورت کو مرد مہیا ہے تو وہاں وہ کیوں ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوتی ہے؟ ہم جنس پرست آبادی کا پانچ سے دس فیصد ہوتے ہیں۔ کیا وہ پاکستان میں نہیں ہیں؟ کیا بنیادی سائیکالوجی اور بیالوجی نظر سے گزری ہے جو آپ یہ قیاس کر رہے ہیں کہ عورت مرد سے بیزار ہو کر ہم جنس پرستی کی طرف راغب ہوتی ہے؟ یہ کہاں کی سائنس ہے؟ اور اگر مغرب میں ہم جنس پرست کھل کے سامنے آ گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں ہم جنس پرستی پائی نہیں جاتی یا یہ کوئی فیشن ٹرینڈ ہے۔

میں تو ایسی عورت دشمن سوچ رکھنے والوں سمیت ہم سب کی بیٹیوں کے لئے اچھے مستقبل کی دعا کرتا ہوں۔ بیٹیاں ہم سب کی سانجھی ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں ایسی دنیا ورثے میں دی جائے جہاں وہ اپنی صلاحیت کے بل پر انسانی ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکیں۔ جہاں  انہیں اپنے جسم پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ خدارا عورت کو ایک عام انسان سمجھ کر بھی کچھ سوچیں۔

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 10 posts and counting.See all posts by akif-khan